Topics

طولانی اور محوری گردش

حضرت یوسفؑ جب مصر کے معزز عہدہ پر فائز ہوئے اور حکومت میں انہیں پورا پورا اختیار مل گیا تو انہوں نے عزیز مصر کے خواب کی تعبیر کو سامنے رکھ کر سات سال تک زبردست منصوبہ بندی کے ساتھ کاشت کرائی اور غلہ ذخیرہ کرنے کے لئے گودام بنوائے تا کہ آئندہ سات سال تک قحط میں عوام اناج سے محروم نہ رہیں اور جب ملک میں خوشحالی کے بعد سات سال خشک سالی آئی تو ان گوداموں سے عوام کو غلہ تقسیم کیا گیا۔

زمین کی بیلٹ (Belt) دو حرکات پر چل رہی ہے ایک محوری اور دوسری طولانی۔ محوری حرکت شمالاً جنوباً سیکنڈ کے ہزارویں حصہ میں بھی توقف کے بغیر جاری ہے اور یہی صورت طولانی حرکت کی ہے۔

اہرام میں محوری حرکت کے ساتھ تین زاویوں پر عمارت کا قیام ہے۔ محوری حرکت ایک سرکل (Circle) ہے جو گھڑی کے فنل (Funnel) کی طرح ہے، اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر ہر سرکل بلاتوقف حرکت میں ہے۔

طولانی حرکت کے برعکس محوری حرکت میں لہریں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ کسی بھی چیز کے اوپر روشنی کے جال کو ڈسٹرب نہیں کرتیں۔ محوری گردش طولانی گردش کو مغلوب رکھتی ہے۔

ہر شئے کے اوپر دو غلاف ہوتے ہیں۔ ایک غلاف مادی اشیاء کی تخلیق میں کردار ادا کرتا ہے اور اس تخلیق میں عناصر کی آمیزش ہوتی ہے۔ عناصر میں کسی نہ کسی طرح خمیر کا عنصر ہوتا ہے۔ یہی خمیر عنصر میں چمک پیدا کرتا ہے۔ یہاں کوئی شئے خمیر کے بغیر نہیں ہے۔ ہم پہاڑوں کو خشک کہتے ہیں لیکن پہاڑوں کے اندر سے بھی گوند نکلتا ہے۔

جن لہروں سے عناصر تخلیق ہوتے ہیں ان لہروں کے اوپر بھی روشنی کا ایک جال ہے جو عناصر کو مقداریں فراہم کرتا ہے اور اس پر محوری حرکت پوری طرح غالب رہتی ہے۔

مخصوص زاویہ Geometeryسے جب اہرام کی تعمیر کی جاتی ہے تو اس میں شمالاً جنوباً پھیلنے والی لہروں کا عملاً دخل ہوتا ہے اور یہ لہریں شئے میں Foriegn Bodyداخل نہیں ہونے دیتیں۔

اہرام میں رکھی ہوئی چیزیں خراب نہیں ہوتیں۔ بلیڈ کی دھار کند نہیں ہوتی۔ کوئی چیز سڑتی نہیں ہے۔ چیزیں خراب اس لئے نہیں ہوتیں کہ مثلث عمارت میں مخصوص زاویہ کی وجہ سے محوری گردش پوری عمارت میں اپنا ایک سرکل بنا لیتی ہے اور اس سرکل کی وجہ سے عمارت میں Magnetic Fieldبن جاتی ہے۔ مثلث عمارت اس لئے ضروری ہے تا کہ شئے کا مادی وجود برقرار رہے۔ اگر شئے میں سے مثلث حذف کر دیا جائے اور صرف سرکل باقی رہنے دیا جائے تو شئے کی ماہیت تبدیل ہو جائے گی اور شئے زمین کی اسکرین سے نکل کر فضاء میں تحلیل ہو جائے گی۔

سابقہ دور میں سائنس زیادہ ترقی یافتہ تھی

حضرت یوسفؑ کے دور میں سائنس ہمارے زمانے سے زیادہ ترقی یافتہ اور فعال تھی۔ اہرام میں لگے ہوئے پتھر کے بلاک کا وزن ۹۰ سے ۶۰۰ سو ٹن تک ہے۔ اتنے وزنی پتھروں کو کئی منزلوں تک پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ اس دور کے سائنسدانوں نے کشش ثقل کو کم سے کم کرنے یا نہ ہونے کے برابر کرنے کا فارمولا معلوم کر لیا تھا۔انہوں نے 600 ٹن وزنی پتھر کو کشش ثقل کم کر کے روئی کے تکیے کے برابر کر دیا تھا۔


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔