Topics

آواز کی فریکوئنسی

حضرت یوشع علیہ السلام کو حکم ہوا کہ سات دن تک اس عہد کے صندوق کے ساتھ فصیل کے گرد روزانہ چکر لگائیں اور گشت کے دوران مینڈھے کے سینگوں کے ساتھ نرسنگھے بجائے جائیں ساتویں روز جب گشت مکمل ہونے پر نرسنگھے بجائے گئے اور لشکر نے با آواز بلند نعرہ لگایا تو فصیل گر گئی اور لشکر شہر میں داخل ہو گیا۔

فتح سے قبل بنی اسرائیل کو ہدایت کی گئی تھی کہ شہر میں توبہ استغفار کرتے ہوئے داخل ہوں مگر انہوں نے روگردانی کی اور فاتحانہ نعروں اور متکبرانہ آوازیں نکالتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے اللہ تعالیٰ کے قانون نے انہیں پکڑ لیا اور عذاب نازل ہوا۔

(تورات کتاب خروج باب ۲۵)

’’اور جب انہیں حکم ہوا کہ بسو اس شہر میں اور کھاؤ اس میں جہاں سے چاہو اور کہو کہ ہم گناہوں کی مغفرت چاہتے ہیں اور داخل ہو دروازے میں سجدہ کرتے تو بخشیں ہم تمہاری تقصیریں آگے اور بہت دینگے نیکی والوں کو سو بدل لیا بے انصافوں نے ان میں سے اور لفظ سوا اس کے جو کہہ دیا تھا پھر بھیجا ہم نے ان پر عذاب آسمانوں سے بدلہ ان کے ظلم کا۔‘‘

(سورۃ اعراف: ۱۶۱۔۱۶۲)

پتھروں کی بارش

بنی اسرائیل مسلسل فتوحات حاصل کرتے ہوئے جب جبعون کی ریاست میں داخل ہوئے تو یروشلم کے حکمران نے چار دوسری ریاستوں کے ساتھ مل کر متحدہ فوج تشکیل دی اور جبعون کا محاصرہ کر لیا تا کہ بنی اسرائیل کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا قلع قمع کیا جا سکے شدید خون ریزی کے بعد متحدہ فوج کو شکست ہوئی، شکست خوردہ فوج جب میدان چھوڑ کر بھاگی تو آسمان سے اولوں اور پتھروں کی بارش ہوئی جس سے باقی ماندہ فوج بھی ہلاک ہو گئی۔ حضرت یوشع علیہ السلام نے فرمایا:

’’اے سورج! تو جبعون پر، اور اے چاند! وادی ابالون میں جاٹھہر اور سورج ٹھہر گیا اور چاند تھم گیا یہاں تک کہ انتقام پورا ہو گیا۔‘‘

(تورات کتاب باب۔۱۰)

کفر و الحاد کی فوجوں سے برسر پیکار رہتے ہوئے حضرت یوشع علیہ السلام نے اکتیس(۳۱) حکمرانوں کو شکست دی، حکم الٰہی کے تحت حضرت یوشع علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے قبائل میں فلسطین کی علاقائی تقسیم کی اور انتظامی امور کے لئے ہزار ہزار سو اور دس دس پر ایک ایک سردار اور منصب دار مقرر کیا اور بنی اسرائیل کے مقدمات کے فیصلوں اور اختلافات کے حل کے لئے قاضیوں کو مقرر کیا۔

خطبہ

وفات سے قبل آپ نے سکم (Shechem) کے مقام پر بنی اسرائیل کو جمع کیا اور آپ نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا:

’’قدیم ایام میں تمہارے آباؤ اجداد حضرت ابراہیم علیہ السلام، مخور اور تارح دریائے فرات کے پار کیدیوں کے دور میں دور دراز ملک میں رہتے تھے، جہاں شرک اور بت پرستی عام تھی، اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی رہبری کی ان کو کنعان کے ملک میں لایا اور ان کی نسل پھولی، پھلی پھر جب بنی اسرائیل مصر میں غلامی کی ذلت آمیز زندگی بسر کر رہے تھے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام مبعوث ہوئے اور تمہیں غلامی سے نجات ملی، فلسطین کے حکمرانوں سے تمہارا مقابلہ ہوا اور اللہ نے تمہیں طاقتور قوموں پر فتح عنایت کی اور وہ ملک جس پر تم نے محنت نہیں کی وہ شہر جن کو تم نے بنایا نہیں تم کو عنایت کئے تم ان میں بستے ہو اور ان کے باغوں کے پھل کھاتے ہو جن کو تم نے نہیں لگایا پس اب تم نیک نیتی اور صداقت سے اللہ کی پرستش کرو اور ان باطل دیوتاؤں کو رد کر دو جن کی پرستش تمہارے باپ، دادا دریا کے پار اور مصر میں کرتے تھے اور اپنے دلوں کو پیغمبرانہ طرز فکر کے مطابق اللہ کی عبادت میں مشغول رکھو۔‘‘

لوگوں نے حضرت یوشع علیہ السلام سے اللہ وحدہ لاشریک کی پرستش کا وعدہ کیا اور حضرت یوشع علیہ السلام نے ان کیلئے سکم میں آئین اور قانون بنایا۔ حضرت یوشع علیہ السلام ایک سو دس برس (۱۱۰) اس دنیا میں رہے۔

 (انا للہ و انا الیہ راجعون)


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔