Topics

چار نورانی لہریں

نور اول

انسان کی تخلیق اللہ کے نور سے ہوئی اور سب سے پہلے اللہ نے محمد رسول اللہﷺ کا نور تخلیق کیا، انسان نور(روشنی) ہے اور روشنی کے انسان کے اندر کھربوں جنریٹر کام کرتے ہیں ان جنریٹرز کو چار نور کی شعاعیں سیراب (Feed) کرتی ہیں۔

۱۔ نہر تسوید

۲۔ نہر تجرید

۳۔ نہر تشہید

۴۔ نہر تظہیر

ایک ذات اور کل ذات کے درمیان تجلی ایک پردہ ہے۔ کل ذات سے مشیت الٰہی محمدﷺ پر نزول کرتی ہے اور یہ ترسیل چار نہروں نہر تسوید، نہر تجرید، نہر تشہید، نہر تظہیر کے ذریعہ ہوتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کا پہلا ادراک سیدنا حضورﷺ کو ہوتا ہے۔ حضورﷺ کے توسط سے مشیت کے معاملات بیت المعمور میں منتقل ہوتے ہیں جہاں ملاء اعلیٰ ان احکامات کو نشر(Inspire) کرتے ہیں۔ یہ انسپائریشن ملائکہ سماوی قبول کرتے ہیں۔ ملائکہ سماوی قضا و قدر کے ان احکامات کو نشر کرتے ہیں تو ملائکہ ارضی قبول کرتے ہیں اور مخلوق کو انسپائر کرتے ہیں۔ جنات اور انسان اس انسپائریشن کو اللہ کے دیئے ہوئے اختیارات سے قبول یارد کرتے ہیں۔

ہماری محسوساتی دنیا اچھائی اور برائی کے تصور پر قائم ہے۔ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ مثلاً آگ کا کام جلانا ہے۔ کھانا پکانے میں آگ کا وصف یہ ہے کہ پانی کو جوش دے کر جلا دیتی ہے۔ اور پانی بھاپ میں تبدیل ہونے سے کھانا تیار ہو جاتا ہے۔ یہ کام بہترین اور صحیح عمل ہے۔ اس لئے کہ اس کی مخلوق کو کھانا فراہم ہوتا ہے۔ اس کے برعکس آگ سے کسی کا گھر جلا دیا جائے۔ یہ کام اللہ کے نزدیک بدترین عمل ہے۔ اس لئے کہ اس میں تخریب ہے۔ آگ کا وصف دونوں جگہ موجود ہے لیکن ایک عمل نیکی ہے اور دوسرا عمل برائی ہے۔

علم قلم

علم قلم اور علم لوح کے عارف و امین حضورﷺ ہیں اور اللہ تعالیٰ رب العالمین ہیں۔ اللہ تعالیٰ وسائل تخلیق کرتے ہیں۔ رسول اللہﷺ رحمت کے ساتھ وسائل تقسیم کرتے ہیں۔ تجلی کے امین حضرت محمدﷺ کی قوت پرواز اتنی برق رفتار ہے کہ جسد مبارک ٹائم اور اسپیس کی حد بندیوں سے آزاد ہے ، نہ صرف آزاد ہے بلکہ ٹائم اسپیس حضور اکرمﷺ کے تابع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب اپنے محبوب کو شرف ملاقات کے لئے مقام محمود میں بلایا تو ٹائم اسپیس سمٹ کر Less nessہو گئی۔

زمان و مکان ارض کے تابع ہے۔ ارض کی سطح اسپیس ہے اور ارض پر حرکت ٹائم ہے۔ ہم جب چلتے ہیں تو ایک پیر اٹھا کر دوسرا پیر زمین پر رکھتے ہیں۔ دوسرا پیر خلاء میں سے گزر کر زمین پر آتا ہے اگر دوسرا قدم خلاء میں نہ تیرے تو چلنا ممکن نہیں ہے۔

ہر عام آدمی اپنے اختیار سے رفتار کم یا زیادہ کر سکتا ہے مثلاً ایک آدمی ٹہلتا ہے، دوسرا تیز قدم چلتا ہے، تیسرا دوڑتا ہے، چوتھا سائیکل پر سوار ہوتا ہے، پانچواں موٹر کار میں سفر کرتا ہے، چھٹا Aeroplaneمیں پرواز کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے اسپیس اور ٹائم کو مسخر کر دیا ہے اسی تسخیر سے وہ زمین پر اور فضا میں حسب منشاء رفتار سے سفر کرتا ہے۔ پیغمر آخر الزماںﷺ کے ’’نور‘‘ سے ساری کائنات تخلیق ہوئی ہے اس حکمت الٰہیہ کے پیش نظر محمدﷺ کو زمین، آسمانوں اور کائنات پر تصرف کرنے کا اختیار ہے۔ جب حضورﷺ معراج پر تشریف لے گئے ان کے ارادے کے تحت براق کی رفتار لامحدود ہو گئی اور کروڑوں سال آن واحد میں تحلیل ہو گئے۔ ایک انسان پارک میں ایک گھنٹہ میں تین میل سیر کرتا ہے۔ دوسرا انسان ہوائی جہاز میں ایک گھنٹہ میں ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر لیتا ہے۔

’’اور تسخیر کر دیا تمہارے لئے جو کچھ سماوات اور زمین میں ہے سب کا سب اپنی طرف سے۔ بے شک اس میں ان لوگوں کے لئے جو سوچتے ہیں نشانیاں ہیں۔‘‘

(سورہ جاثیہ ۔۱۳)

’’کیا تم نے اس پر نظر نہیں کی کہ اللہ نے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو تمہارے لئے مسخر کر دیا اور تم پر اپنی نعمتیں ظاہر میں اور باطن میں کمال کو پہنچا دیں اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ کے بارے میں بغیر علم، بغیر ہدایت اور بغیر روشن کتاب کے جھگڑتا ہے۔‘‘

(سورہ لقمان۔ ۲۰)

’’کیا تم نے اس پر نظر نہیں کی کہ اللہ نے ان تمام چیزوں کو جو زمین میں ہیں اور کشتیوں کو جو اس کے حکم سے سمندر میں چلتی ہیں تمہارے بس میں کر دیا۔‘‘

(سورہ حج۔ ۶۵)

’’اللہ وہ ہے جس نے سمندر کو تمہارے بس میں کر دیا تا کہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تا کہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور تا کہ تم شکر کرو۔‘‘

(سورہ جاثیہ۔ ۱۲)

’’اور اس نے تمہارے لئے رات اور دن کو مسخر کیا۔‘‘

(سورہ ابراہیم۔ ۳۳)

تین روحیں

حضورﷺ فرماتے ہیں:

’’میں نے معراج کے سفر میں چار نہروں کا معائنہ کیا ہے۔‘‘

چار نہروں سے تین روحیں وابستہ ہیں:

۱۔ روح اعظم

۲۔ روح انسانی

۳۔ روح حیوانی

سیدنا حضورﷺ کے وارث اولیاء اللہ جنہیں رسول اکرمﷺ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ نے علم لدنی عطا فرمایا ہے۔ بتاتے ہیں:

روح اعظم کے دو رخ ہیں۔ اخفیٰ۔خفی

روح انسانی کے دو رخ ہیں۔ سری۔ روحی

روح حیوانی کے دو رخ ہیں۔ قلب۔ نفس

ان برگزیدہ ہستیوں نے کائنات کے درجے بیان کئے ہیں۔

کائنات کی معلومات کا ریکارڈ۔

نور مطلق۔ نسمہ مطلق۔ ثابتہ۔ روح اعظم

زندگی کی تشکیل کے احکامات

نور مفرد۔ نسمہ مفرد۔ اعیان۔ روح انسانی

انفرادی اعمال کا ریکارڈ

نسمہ مرکب۔ عالم جو۔ روح حیوانی

’’اخفیٰ‘‘ کا مقام سر کے درمیان ( ام الدماغ) ہے۔ اس کا رنگ بنفشی ہے۔

’’خفی‘‘ کا مقام دونوں ابروؤں کے درمیان پیشانی پر ہے۔ اس کا رنگ نیلا ہے۔

’’سرّی‘‘ کا مقام سینے کے دائیں طرف ہے۔ اس کا رنگ سفید ہے۔

’’روحی‘‘ کا مقام سینے کے درمیان ہے اس کا رنگ سبز ہے۔

’’قلب‘‘ کا مقام سینے کے بائیں طرف ہے اس کا رنگ سرخ ہے۔

’’نفس‘‘ کا مقام ناف کی جگہ ہے۔ اس کا رنگ زرد ہے۔

’’اخفیٰ ‘‘میں علم الٰہی کی تجلی، اللہ کی مصلحت اور اسرار و رموز کا ریکارڈ ہے۔ انہیں خفی کی روشنی میں پڑھا جا سکتا ہے۔

’’سرّی‘‘ میں فرد کے متعلق احکامات لوح محفوظ کے تمثلات کی شکل میں محفوظ ہوتے ہیں۔

لوح محفوظ کے اوپر نوعی ریکارڈ لطیفہ روحی کی روشنی میں پڑھا جا سکتا ہے۔

لطیفہ قلبی میں انسان اپنے اعمال کا مشاہدہ کرتا ہے ان اعمال کو لطیفہ نفسی کی روشنی میں پڑھا جا سکتا ہے۔

ساڑھے گیارہ ہزار تجلیات

روح اعظم سے واقف بندہ اللہ تعالیٰ کی تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار تجلیات کا مشاہدہ کرتا ہے۔

٭٭٭٭٭


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔