Topics

حضرت یوسف علیہ السلام

حضرت یوسف علیہ السلام کی پیدائش کے وقت حضرت یعقوبؑ کی عمر ۷۳ برس تھی۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے گیارہ بھائی تھے۔ ’’بن یامین‘‘ سگے بھائی تھے اور دس سوتیلے بھائی تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام بھائیوں میں سب سے زیادہ حسین و جمیل اور فہیم تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی پیشانی نور افگن تھی۔ حضرت یوسفؑ نے خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند حضرت یوسفؑ کو سجدہ کر رہے ہیں(اس وقت حضرت یوسفؑ کی عمر بارہ سال تھی)۔ حضرت یعقوبؑ کو جب خواب سنایا تو انہوں نے خواب کی تعبیر بتائی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے کام کے لئے منتخب کرے گا اور علم و حکمت سے نوازے گا اور نصیحت کی کہ یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا ورنہ وہ تمہارے دشمن ہو جائیں گے۔ حضرت یوسفؑ کے قصے کو قرآن حکیم میں ’’احسن القصص‘‘ کہا گیا ہے۔

گیارہ ستارے، سورج    اور چاند

حضرت یوسفؑ نے اپنے والد حضرت یعقوبؑ سے کہا!

’’اے میرے باپ! میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔‘‘ حضرت یعقوبؑ نے فرمایا!

’’میرے بیٹے جس طرح تو نے دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند تیرے آگے جھکے ہوئے ہیں اسی طرح تیرا پروردگار تجھے برگزیدہ کرنے والا ہے۔‘‘

ایک روز حضرت یوسفؑ کے سوتیلے بھائیوں نے پروگرام بنایا کہ یوسفؑ کو باپ سے دور کر دیں۔ سب بھائیوں نے باپ سے کہا! 

’’ہم یوسف کو سیر کرانے کے لئے اپنے ساتھ جنگل میں لے جانا چاہتے ہیں۔ حضرت یعقوبؑ نے بے انتہا اصرار کے بعد نیم دلی سے اجازت دے دی۔ سوتیلے بھائی حضرت یوسفؑ کو ساتھ لے گئے اور اندھے کنوئیں میں پھینک دیا اور مکر و فریب سے روتے ہوئے گھر واپس آئے۔ باپ کے سامنے یہ عذر پیش کیا کہ حضرت یوسفؑ کو بھیڑیا کھا گیا ہے۔ ثبوت کے طور پر بکری کے خون میں رنگے ہوئے حضرت یوسفؑ کے کپڑے باپ کو دکھائے۔ حضرت یعقوبؑ گو کہ ان کا حیلہ سمجھ گئے لیکن رضائے الٰہی سمجھ کر خاموش ہو گئے۔ جس کنوئیں میں حضرت یوسفؑ کو پھینکا گیا تھا۔ یہ کنواں حبرون(موجودہ الخلیل) کی وادی میں سیکم کے قریب ہے۔ اسماعیلی تاجروں کا ایک قافلہ مصر جاتے ہوئے یہاں سے گزرا تو قافلے کے لوگوں نے ایک کنواں دیکھا۔ پانی پینے کے لئے قافلہ رک گیا۔ 

قافلے والے نے کنوئیں میں ڈول ڈالا تو حضرت یوسفؑ اسے پکڑ کر کنوئیں سے باہر نکل آئے۔ تاجر آپ کو ساتھ لے گئے اور مصر کے بازار میں نیلام کر دیا۔

عربی نسل ’’عمالیق‘‘ جو دو ہزار قبل مسیح میں فلسطین اور شام سے آ کر مصر پر قابض ہو گئے تھے اس وقت حکمران تھے۔ 

اپوفیس(Apophis) نامی بادشاہ تھا۔ مصری فوج کے سپہ سالار ’’فوطیفار‘‘ نے بیس درہم(تقریباً ۳۴۰ پاکستانی روپے) میں حضرت یوسفؑ کو خرید لیا۔ قرآن نے خریدار کا تعارف عزیز مصر کے نام سے کرایا ہے۔ عزیز مصر کے معنی ایسے صاحب اقتدار کے ہیں جس کے خلاف کوئی مزاحمت نہ ہو سکے۔ عزیز مصر کسی شخص کا نام نہیں ہے بلکہ ایک عہدے کا نام ہے۔ بائبل اور تلموز کے مطابق (یہ روایت بھی ملتی ہے کہ عزیز مصر شاہی خزانہ کا افسر اعلیٰ تھا) عزیز مصر شاہی محافظوں کا افسر اعلیٰ تھا۔ عزیز مصر نے اپنی بیوی سے کہا!

ترجمہ:’’اس کو اچھی طرح رکھنا بعید نہیں کہ یہ ہمارے لئے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں۔‘‘

(یوسف:۶۱)


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔