Topics

حضرت یونس علیہ السلام

یوناہ

حضرت یونسؑ کو ۲۸ سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی۔ آپ پر صحیفہ نازل ہوا جو تورات میں ’’یوناہ‘‘ کے نام سے موجود ہے۔ حضرت یونسؑ نینوا کی طرف مبعوث کئے گئے۔ حضرت سلیمانؑ کے انتقال کے بعد بنی اسرائیل ایک مرتبہ پھر کفر و شرک، بت پرستی اور نافرمانی میں مبتلا ہو گئے تھے۔ جب اللہ کی ذات پر سے یقین ٹوٹنے لگا، اللہ کے احکامات سے روگردانی ہونے لگی اور لوگ مال و دولت کی محبت میں مبتلا ہو گئے تو قانون قدرت حرکت میں آ گیا۔ بنی اسرائیل پر بخت نصر کا غلبہ ہو گیا، بخت نصر کے لشکر نے بیت المقدس میں قتل و خون ریزی کا بازار گرم کر دیا، تقریباً (۷۰) ستر ہزار اسرائیلی تہہ تیغ ہو گئے اور اتنی ہی تعداد میں قیدی بن گئے۔ رومیوں نے ارض مقدس پر حملہ کر دیا۔ ایک مرتبہ پھر یہ ناشکری قوم عذاب میں مبتلا ہو گئی، رومیوں کے بعد بابل اور نینوا کو پھر عروج ہوا۔

اشوریوں کے دور حکومت میں جب شہر ’’اشور‘‘ دارالحکومت تھا اس زمانے میں دجلہ کے کنارے نینوا ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ اشورکے کسی بادشاہ نے اپنے دیوتا کے نام پر نینوا میں ایک مندر بنوایا، رفتہ رفتہ دوسرے بادشاہوں نے بھی مندر اور عمارتیں بنانا شروع کر دیں اور ایک وقت ایسا آیا کہ یہ چھوٹا سا گاؤں سلطنت اشوریہ کے عظیم الشان دارالسلطنت میں تبدیل ہو گیا۔ نینوا کے وسط میں مندر اور شاہی محل تھے جہاں سے بادشاہ وقت نینوا کے پر رونق بازاروں، گلیوں اور تفریح گاہوں کا نظارہ کرتا تھا، شمال کی طرف بلند و بالا عمارتوں کا طویل جال بچھا ہوا تھا۔ مغرب میں ہرے بھرے لہلہاتے کھیت تھے، پورا شہر درختوں، پودوں بل کھاتی، بیلوں، پھلوں اور خوبصورت باغات سے سرسبز و شاداب تھا، جگہ جگہ چوراہوں پر فوارے عوام کو دعوت نظارہ دیتے تھے، سنگ مر مر کے تختوں پر نقش و نگار کندہ تھے، ان میں رنگ بھرے ہوئے تھے، پتھر تراش اشوری مختلف جانوروں اور دیوتاؤں کی تصاویر بنانے میں یکتائے فن تھے، اہل نینوا کی زبان سامی تھی، تہذیب و تمدن کے لحاظ سے یہ انتہائی ترقی یافتہ قوم ظلم و ستم اور سنگدلی میں بھی یکتا تھی، وحشی اقوام کی طرح جب یہ کسی ملک یا قوم پر غالب آتی تو اس کا نام و نشان مٹا دیتی، دوسرے ملکوں کی رعایا کو قتل کر دیا جاتا تھا اور ہر سر کے بدلے سپاہی کو انعام و اکرام سے نوازا جاتا تھا۔ ’’اشوردیوتا‘‘ ان کا سب سے بڑا دیوتا تھا، سیاسی اور انتظامی امور دیوتا کا نام لے کر انجام دیئے جاتے تھے، یہ لوگ بادشاہ کو خدا کا درجہ دیتے تھے۔

قیدی اسرائیل

حضرت یونسؑ نینوا تشریف لے گئے اور بادشاہ ’’پول‘‘ کو پیغام حق سنایا۔ اسرائیلی قیدیوں کو آزاد کرنے کا حکم دیا، شاہ نینوا آپ کی باتیں سن کر غضبناک ہو گیا اور آپ کی جان کے درپے ہو گیا۔ حضرت یونسؑ متحمل مزاجی سے اس کوشش میں لگے رہے کہ بادشاہ آپ کی بات اور آپ کے پیغام کو قبول کر لے لیکن جب کوششیں بارآور نہیں ہوئیں تو حضرت یونسؑ عوام کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں توحید کی دعوت دی، شرک و بت پرستی اور دیگر اخلاقی برائیوں سے منع فرمایا لیکن اہل نینوا نے حضرت یونسؑ کی تبلیغ اور تعلیمات کا مذاق اڑایا۔ حضرت یونسؑ نے جب دیکھا کہ لوگ کسی طرح راہ راست پر آنے کے لئے تیار نہیں تو لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا اس پر بھی لوگ نہ مانے تو آپ نے بادشاہ وقت اور اہل نینوا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

’’اگر تم نے چالیس دنوں کے اندر بت پرستی اور شرک سے توبہ نہ کی اور ایک اللہ کی پرستش نہیں کی اور اسرائیلیوں کو قید سے آزاد نہیں کیا تو تم پر اللہ کا قہر نازل ہو گا، پورا شہر تباہ و برباد ہو جائے گا۔‘‘

لوگوں نے آپ کا مذاق اڑایا اور کہا:

’’ہم تمہارے رب کی طرف سے عذاب کے منتظر رہیں گے۔‘‘

ایک مہینہ کے بعد حضرت یونسؑ شہر سے نکل کر دس بارہ کوس دور چلے گئے۔ پینتیسواں دن نینوا دھویں کی لپیٹ میں آ گیا اور آگ کی بارش شروع ہو گئی۔ یہ صورتحال دیکھ کر اہل نینوا پریشان اور خوف زدہ ہو گئے، تمام عورتوں بچوں اور بوڑھوں امراء و غرباء نے بوسیدہ لباس پہنا اور ایک وسیع میدان میں جمع ہو کر اللہ کے حضور توبہ استغفار کی اور صدق دل سے حضرت یونسؑ کی پیروی کا اقرار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی اور عذاب ٹل گیا۔

ٹاٹ کا لباس

توریت میں یہ واقعہ اس طرح مذکور ہے:

’’اور یوناہ شہر میں داخل ہوا اور ایک دن کی راہ چلا اس نے منادی کی اور کہا چالیس روز بعد نینوا تباہ ہو جائے گا۔ تب نینوا کے باشندوں نے خدا پر ایمان لا کر روزے کے منادی کی اور ادنیٰ و اعلیٰ سب نے ٹاٹ اوڑھا اور یہ خبر نینوا کے بادشاہ تک پہنچی اور وہ اپنے تخت سے اٹھا اور بادشاہی لباس اتار کر ٹاٹ اوڑھ کر راکھ پر بیٹھ گیا اور بادشاہ کے فرمان سے نینوا میں یہ منادی کرا دی گئی کہ کوئی انسان یا حیوان کھانا نہ کھائے، پوری رعایا ٹاٹ پہنے گی، اپنے جانوروں پر بھی ٹاٹ کے جھول ڈال دیئے جائیں، سب انسان خدا کے حضور گریہ و زاری کریں، ہر شخص بری روش اور ظلم سے باز رہنے کا عہد کرے، شاید خدا رحم کرے اور اپنا ارادہ بدل دے اور اس کے شدید عذاب سے ہمیں نجات مل جائے۔ جب خدا نے ان کی یہ حالت دیکھی کہ وہ اپنی اپنی بری روش سے باز آئے تو وہ اس عذاب سے جو اس نے ان پر نازل کرنے کو کہا تھا باز آیا اور اسے نازل نہ کیا۔‘‘

(یوناہ۔ باب ۳۔ آیت: ۴۔۱۰)

’’کہا ایسی کوئی مثال ہے کہ ایک بستی عذاب دیکھ کر ایمان لائی ہو اور اس کا ایمان اس کے لئے نفع بخش ثابت ہوا ہو، یونسؑ کی قوم کے سوا وہ قوم جو ایمان لے آئی تھی تو البتہ ہم نے اس پر سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ٹال دیا تھا اور اس کو ایک مدت تک زندگی سے بہرہ مند ہونے کا موقع دیا تھا۔‘‘

(سورۃ یونس۔ ۹۸)

حضرت یونسؑ شہر سے باہر نینوا کی تباہی کے منتظر تھے چونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل نینوا کی توبہ استغفار پر انہیں معاف کر دیا تھا اس لئے چالیس روز گزرنے کے بعد عذاب نازل نہیں ہوا تو حضرت یونسؑ اللہ کے حکم کا انتظار کئے بغیر وہاں سے چل پڑے۔

مفرور غلام

روایت کے مطابق آپ نے روم کی طرف سفر کیا۔ آپ کے ساتھ آپ کی زوجہ محترمہ اور دو بچے بھی تھے۔ دوران سفر ایک مقام پر حضرت یونسؑ اپنی بیگم اور بچوں کو چھوڑ کر کسی کام سے گئے تو اسی دوران وہاں سے کسی بادشاہ کا گزر ہوا اس نے جب بیابان میں ایک جمیل عورت کو دیکھا تو وہ بچوں کو چھوڑ کر حضرت یونسؑ کی زوجہ محترمہ کو زبردستی اپنے ساتھ لے گیا۔ حضرت یونسؑ جب واپس تشریف لائے تو اس واقعہ کو مشیت ایزدی سمجھ کر خاموش ہو گئے اور بچوں کے ساتھ دوبارہ سفر شروع کر دیا۔ راستے میں ایک ندی عبور کرنی تھی آپ ایک بیٹے کو ندی کے کنارے چھوڑ کر دوسرے بیٹے کو کندھے پر سوار کر کے ندی عبور کرنے لگے۔ حضرت یونسؑ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ ایک بیٹے کو دوسرے کنارے اتار کر واپس آ کر دوسرے بیٹے کو لے جائیں گے، جب آپ ندی کے درمیان میں پہنچے تو ایک تیز لہر آئی اور بچہ پانی میں گر گیا، پانی کی تیز و تند لہریں بچے کو بہا کر لے گئیں، حضرت یونسؑ نے اس کو بھی مشیت ایزدی سمجھا اور کنارے پر آ گئے لیکن ندی کے کنارے پہنچنے سے پہلے بچہ کو بھیڑیا اٹھا کر لے گیا۔

حضرت یونسؑ سفر کرتے ہوئے دریائے فرات کے کنارے پہنچے، ساحل پر مسافروں سے بھری ہوئی ایک کشتی تیار کھڑی تھی۔ 

آپ اس میں سوار ہو گئے راستے میں کشتی طوفان کی زد میں آ گئی اس وقت لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ جب کوئی مفرور غلام کشتی میں سوار ہوتا ہے تو کشتی طوفان میں گھر جاتی ہے، کشتی کے ناخدا نے مسافروں سے کہا کہ اس وقت کشتی میں جو شخص مفرور غلام کی حیثیت سے سفر کر رہا ہے وہ دریا میں کود جائے ورنہ سارے مسافر ڈوب جائیں گے۔

مچھلی کا پیٹ

حضرت یونسؑ نے جب یہ سنا تو یاد آیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر نینوا سے چلے آئے ہیں۔ حضرت یونسؑ نے ناخدا سے کہا۔

’’میں اپنے آقا کی مرضی کے بغیر اور اس کے حکم کا انتظار کئے بغیر چلا آیا ہوں لہٰذا میں ہی وہ غلام ہوں جس کی وجہ سے کشتی طوفان کی زد میں آ گئی ہے۔‘‘

ناخدا نے ان کی پروقار شخصیت دیکھ کر پانی میں کودنے کی اجازت نہیں دی، جب طوفان کی شدت میں مسلسل اضافہ ہونے لگا تو فیصلہ کیا گیا کہ قرعہ اندازی کی جائے قرعہ اندازی میں جس کا نام نکلے اس کو پانی میں پھینک دیا جائے، قرعہ اندازی میں حضرت یونسؑ کا نام نکلا، تین مرتبہ قرعہ اندازی کی گئی اور ہر بار حضرت یونسؑ کا ہی نام نکلا، لوگوں نے مجبوراً آپ کو دریا میں پھینک دیا، دریا میں گرتے ہی ایک بڑی مچھلی نے آپ کو نگل لیا۔

’’اور یقیناً یونس بھی رسولوں میں سے تھا یاد کرو جب وہ ایک بھری کشتی کی طرف بھاگ نکلا پھر قرعہ اندازی میں شریک ہوا  اور نکلا خطاوار پھر مچھلی نے اسے نگل لیا اور وہ ملامت زدہ تھا۔‘‘

(سورۃ صٰفٰت: ۱۴۱۔۱۴۲)

حضرت یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ کی تاریکی میں اپنی بھول کا احساس ہوا اور آپ اپنی بھول پر نادم اور شرمسار ہوئے، اللہ کی تسبیح و تقدیس کرتے ہوئے معافی طلب کی رحیم و کریم ہستی اللہ نے دعا قبول کی اور آپ کو اس تکلیف سے نجات عطا کی۔

’’اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا، یاد کرو جب کہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے آخر کو اس نے تاریکیوں میں سے انہیں پکارا ہے کوئی اللہ مگر تو پاک ہے تیری ذات بے شک میں نے قصور کیا تب ہم نے اس کی دعا قبول کی اور غم سے اس کو نجات بخشی اور اسی طرح ہم مومنوں کو بچا لیا کرتے ہیں۔‘‘

(سورہ انبیاء: ۸۷۔۸۸)

سایہ دار درخت

توراۃ میں کتاب یوناہ باب ۲ حضرت یونسؑ کی دعاؤں پر مشتمل ہے جو آپ نے مچھلی کے پیٹ میں اللہ تعالیٰ کے حضور احساس ندامت کے تحت مانگی تھیں، تورات کے مطابق آپ مچھلی کے پیٹ میں تین دن اور رات رہے بالآخر مچھلی نے آپ کو اللہ کے حکم سے خشکی پر اگل دیا، گرمی کی شدت اور دھوپ کی تمازت سے محفوظ رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے وہاں ایک سایہ دار درخت اگا دیا۔

’’اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا تو روز قیامت تک اس مچھلی کے پیٹ میں رہتا آخر ہم نے اسے بڑی سقیم حالت میں ایک چٹیل زمین پر پھینک دیا اور اس پر ایک بیل دار درخت اگا دیا۔‘‘

(سورہ الصٰفٰت: ۱۴۳۔۱۴۴)

دیمک

بتایا جاتا ہے کہ یہ بیل دار درخت کدو کا درخت تھا، مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی وجہ سے حضرت یونسؑ کا جسم کسی نومولود پرندے کے جسم کی طرح نرم و نازک اور ملائم ہو گیا تھا رفتہ رفتہ آپ کی صحت بحال ہونے لگی اور آپ اس مقام پر جھونپڑی بنا کر رہنے لگے، ابھی آپ کے قیام کو چند ہی روز گزرے تھے اس بیل کے درخت کی جڑ کو دیمک نے کھا لیا، حضرت یونسؑ درخت سوکھ جانے پر پریشان ہوئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

’’تم اس درخت کے اجڑنے پر رنجیدہ ہو لیکن تم نے یہ نہیں سوچا کہ نینوا جو ایک لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل شہر ہے، کیا مجھے اس کے برباد ہونے پر ناگواری نہیں ہو گی؟‘‘ 

استغفار

حضرت یونسؑ نے پھر بارگاہ الٰہی میں سجدہ ریز ہو کر توبہ استغفار کی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ دوبارہ اپنی قوم کی ہدایت و رہبری کے لئے نینوا جاؤ۔ حضرت یونسؑ اپنی قوم میں پہنچے تو اہل نینوا نے آپ کا پرجوش استقبال کیا اور پوری قوم آپ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اللہ کی وحدانیت پر ایمان لے آئی۔

’’اس کے بعد ہم نے اسے ایک لاکھ یا اس سے زائد لوگوں کی طرف بھیجا اور وہ ایمان لائے اور ہم نے ایک وقت خاص تک انہیں باقی رکھا۔‘‘

(سورۃ الصٰفٰت: ۱۴۷۔۱۴۸)

آپ کی زوجہ اور بچے جو دوران سفر آپ سے جدا ہو گئے تھے آپ کو واپس مل گئے۔ آپ نے بقیہ عمر نینوا میں گزاری اور موصل کے 

قریب دفن ہوئے۔


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔