Topics

گوشت پوست انسان نہیں ہے:

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ انسان محض گوشت پوست اور ہڈیوں سے مرکب جسم ہے۔ اس کی تمام دلچسپیاں، تمام توجہ اسی جسم پر مرکوز رہتی ہے اور وہ اپنی توانائی اس جسم کو پروان چڑھانے اور آسائش بہم پہنچانے میں استعمال کرتا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اصل انسان گوشت پوست کا جسم نہیں بلکہ اصل انسان وہ ہے جو اس جسم کو متحرک رکھتا ہے۔ یہ اصل انسان جو مادی جسم کو سہارا دیتا ہے ’’روح‘‘ ہے۔ عظیم روحانی سائنسدان قلندر بابا اولیاءؒ نے کتاب ’’لوح و قلم‘‘ میں اس بات کو اس طرح بیان کیا ہے۔

’’ہم اپنے مادی جسم کی حفاظت کے لئے لباس بناتے ہیں۔ لباس خواہ اونی ہو، سوتی ہو، نائلون کے تاروں سے بنا ہو یا ریشم سے بنا ہوا ہو جب تک گوشت پوست کے جسم پر موجود ہے اس میں حرکت رہتی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی آدمی ہاتھ ملائے اور قمیض کی آستین نہ ہلے، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ قمیض کو چارپائی پرڈال دیا جائے یا کھونٹی پر لٹکا دیا جائے تو اس کے اندر اسی طرح حرکت پیدا ہو گئی ہو جس طرح مادی جسم کی حرکت کے ساتھ ساتھ لباس میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ لباس کی حرکت جسم کے تابع ہے۔ سوتی، اونی یا کھال کے بنائے ہوئے لباس میں اپنی ذاتی کوئی حرکت واقع نہیں ہوتی۔‘‘

اسی طرح جب روح آدمی سے بے تعلق ہو جاتی ہے اور آدمی مر جاتا ہے تو کپڑے سے بنے ہوئے لباس کی طرح گوشت پوست اور رگ پٹھوں سے مرکب مادی جسم کے اندر بھی کوئی ذاتی حرکت یا قوت مدافعت باقی نہیں رہتی۔ جب تک روح اس لباس کو پہنے ہوئے تھی اس لباس میں حرکت اور قوت مدافعت موجود تھی۔ پس ثابت ہوا کہ ہم گوشت پوست کے جس انسان کو اصل انسان کہتے ہیں وہ اصل انسان نہیں ہے بلکہ اصل انسان کا لباس ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندے سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرماتے ہیں:

’’یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپﷺ کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کے امر سے ہے۔‘‘ 

سورۃ بنی اسرائیل: ۸۵)

امر کی تعریف سورۃ یٰس میں اس طرح کی گئی ہے:

’’اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ’ہو‘ اور وہ ہو جاتی ہے۔‘‘ 

(سورۃ یٰس: ۸۲)

ان آیات میں تفکر سے یہ حکمت سامنے آتی ہے کہ آدمی جسمانی اعتبار سے ناقابل تذکرہ شئے ہے۔ اس کے اندر اللہ کی پھونکی ہوئی روح ہی اصل انسان ہے اور وہی اصل انسان صفات الٰہی کا علم رکھتا ہے۔

سورۃ البقرہ میں یہ واقعہ بالتفصیل مذکور ہے کہ اللہ نے جب آدم کی تخلیق کا تذکرہ فرشتوں سے کیا اور انہیں بتایا کہ میں زمین پر اپنا نائب بنانے والا ہوں تو فرشتوں نے عرض کیا کہ اگر آدم ؑ کی پیدائش کا مقصد یہ ہے کہ آدم رات دن تیری عبادت کرے گا اور تیری عظمت و بزرگی بیان کرے گا تو ہم پہلے سے ہی اس کام کے لئے موجود ہیں۔ ہم ہر لمحہ تیری حمد و ثناء میں لگے رہتے ہیں اور بغیر کسی حیل و حجت کے تیرا حکم بجا لاتے ہیں۔ اس مٹی کے پتلے سے فتنہ و فساد کی بو آتی ہے۔

اللہ نے فرشتوں کی بات کو رد نہیں کیا اور ارشاد فرمایا کہ

’’جو میں جانتا ہو وہ تم نہیں جانتے۔‘‘ (سورۃ البقرہ : ۳۰)

اللہ نے آدم ؑ کو تخلیق کائنات کے رموز اور فارمولوں کا علم عطا کر کے فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرشتوں سے کہا کہ اگر تم حکمت کائنات سے واقف ہو تو بیان کرو۔

فرشتوں نے عرض کیا ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے اور حقیقت میں علیم و حکیم آپ ہی ہیں۔ جب حضرت آدمؑ نے فرشتوں کے سامنے اللہ کے عطا کردہ علم کا مظاہرہ کیا تو اللہ نے فرمایا!

’’میں نے نہ کہا تھا کہ تم کو، مجھ کو معلوم ہیں پردے آسمان زمین کے اور معلوم ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو۔‘‘ 

(سورۃ البقرہ: ۳۳)

شرف انسان پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم ؑ کو سجدہ کر کے ان کی حاکمیت کو تسلیم کر لیں۔

’’جب کہا تیرے رب نے فرشتوں کو میں بناؤں گا ایک بشر کھنکھناتے سڑےگارے سے۔ پھر جب ٹھیک کروں اس کو اور پھونک دوں اس میں اپنی جان تو تم گر پڑو اس کے آگے سجدے میں۔ پھر سجدہ کیا فرشتوں نے سارے اکٹھے۔ مگر ابلیس نے غرور کیا اور تھا وہ منکروں میں۔ فرمایا اے ابلیس! تجھ کو کیا اٹکاؤ ہوا کہ سجدہ کرے اس چیز کو جو میں نے بنائی اپنے دونوں ہاتھوں سے، یہ تو نے غرور کیا یا تو بڑا تھا درجہ میں۔ بولا میں بہتر ہوں اس سے، مجھ کو بنایا تو نے آگ سے اور اس کو بنایا مٹی سے۔ فرمایا تو تُونکل یہاں سے کہ تو مردود ہوا اور تجھ پر میری پھٹکار ہے اس جزا کے دن تک۔‘‘

(سورۃ ص: ۷۱۔۷۸)

ابلیس اپنے غرور اور تکبر میں یہ بھول گیا کہ آدم اور جنات دونوں خدا کی مخلوق ہیں۔ مخلوق کی حقیقت خالق سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ شیطان غرور اور تکبر میں یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ مرتبہ کی بلندی اور پستی اس مادہ کی بناء پر نہیں ہے جس سے کسی مخلوق کا خمیر تیار کیا گیا ہے بلکہ ان صفات پر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر ودیعت کی ہیں۔

ابلیس نے جب یہ دیکھا کہ اسے حکم کی خلاف ورزی نے رب العالمین کی آغوش رحمت سے دور کر دیا ہے تو اس نے توبہ اور ندامت کے بجائے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور اپنی گمراہی کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ کو قرار دیا اور کہا:

’’مجھے تو نے اغوا کر لیا اور صراط مستقیم سے بھٹکا دیا۔ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں آدم زاد پر خود اس کی اپنی حقیقت آشکار نہ ہونے دوں اور انسان کو اسی طرح گمراہ کر دوں جس طرح تو نے مجھے صراط مستقیم سے بھٹکا دیا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو اپنے حربے استعمال کر کے دیکھ لے۔ میرے سچے بندے تیرے دھوکے میں نہیں آئیں گے۔ ابلیس اپنی گستاخی کی بناء پر ملعون اور راندہ درگاہ قرار پایا۔

اللہ کریم کے ارشاد کے مطابق حضرت آدم ؑ کو جو مقام عطا ہوا وہ جنت ہے یعنی ’’اسماء’’ کا علم جب حضرت آدمؑ کے اندر متحرک ہوا تو انہوں نے خود کو جنت میں پایا۔ جنت ایسی فضا ہے جس میں کام کرنے والے حواس پابند نہیں ہیں۔ ان میں کثافت نہیں ہے۔ کسی قسم کی الجھن اور پریشانی کو دخل نہیں ہے جہاں زندگی کا وہ رخ سامنے رہتا ہے جس رخ میں سکون ہے، راحت و آسائش ہے، حاکمیت اور تسخیر کائنات کا احساس ہے۔

جنت میں اللہ کریم کی قدرت کاملہ کا مظاہرہ ہوا اور حضرت آدم ؑ سے حضرت بی بی حوا کے وجود کی تخلیق عمل میں آئی۔ جنت کا وسیع و عریض رقبہ حضرت آدم ؑ اور ان کی بیوی کے لئے مسخر کر کے انہیں اختیار دے دیا گیا کہ جہاں سے دل چاہے خوش ہو کر کھاؤ پیو۔ لیکن ایک مخصوص درخت کے قریب جانے سے منع کر دیا گیا۔

ابلیس نے موقع پا کر حضرت آدم ؑ اور حضرت بی بی حوا کو بہکا دیا اور انہیں باور کرایا کہ جس درخت کے پاس جانے سے انہیں منع کیا گیا ہے وہ شجر ’’شجرِ خلد‘‘ ہے اس کا پھل کھانا جنت میں سرمدی آرام و سکون اور قرب الٰہی کا ضامن ہے اور انہیں باور کرایا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ دشمن نہیں ہوں۔ جنت میں مکین حضرت آدم ؑ و حوا اس کے بہکاوے میں آ کر درخت کے قریب چلے گئے، وہ بھول گئے کہ ابلیس ان کا ازلی دشمن ہے۔ ازلی دشمن خیر خواہ کیسے ہو سکتا ہے اس کا تو کام ہی نقصان پہنچانا ہے۔ پھر یہ کہ جنت میں قیام اور قرب الٰہی کسی درخت کا پھل کھانے کا مرہون منت نہیں ہے بلکہ یہ تو اللہ کا خصوصی انعام و فضل ہے۔

حضرت آدم ؑ اور حضرت حوا ؑ درخت کے قریب چلے تو گئے لیکن بھول جانے کے احساس نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا اور ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالنے کے لئے شیطان کو راہ مل گئی۔ غلطی، حکم عدولی اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا خیال ان کے دل میں جاگزیں ہو گیا اور وہ غم زدہ ہو گئے۔ جنت کی دائمی خوشی اور آرام و سکون، بے سکونی میں بدل گیا۔ جنت کے آزاد حواس پس پردہ چلے گئے اور پابند حواس حضرت آدم ؑ اور حضرت حواؑ پر مسلط ہو گئے۔ انہیں برہنگی کا احساس ہوا ستر پوشی کے خیال کے تحت وہ پتوں سے تن ڈھانپنے لگے۔۔۔۔۔۔گویا انسانی تمدن کا یہ آغاز تھا کہ تن ڈھانپنے کے لئے سب سے پہلے آدم نے پتوں کا استعمال کیا۔

حضرت آدم ؑ سے بازپرس ہوئی کہ ممانعت کے باوجود حکم عدولی کیوں ہوئی؟ آدم بارگاہ الٰہی میں مقبول تھے اس لئے شیطان کی طرح مظاہرہ نہیں کیا اور اپنی بھول کو تاویلات کے پردے میں چھپانے سے باز رہے۔ ندامت اور شرمساری کے ساتھ اقرار کیا کہ بھول ہوئی مگر اس کا سبب سرکشی نہیں بلکہ نسیان اور بھول ہے تاہم غلطی ہو گئی ہے توبہ استغفار کے ساتھ عفو و درگزر کا خواستگار ہوں۔

اللہ نے آدم کے عذر کو قبول فرما لیا اور معاف کر دیا اور یہ فیصلہ سنایا کہ تم کو اور تمہاری اولاد کو ایک معین وقت تک زمین پر قیام کرنا ہو گا اور تمہارا دشمن ابلیس بھی اپنے تمام سامان عداوت کے ساتھ وہاں موجود رہے گا۔

تم کو خیر و شر دو متضاد طاقتوں کے درمیان زندگی بسر کرنا ہو گی اگر تم اور تمہاری اولاد مخلص اور سچے بندے ثابت ہوئے تو تمہارا اصلی وطن ’’جنت‘‘ تمہیں لوٹا دیا جائے گا۔

قرآن کریم نے تاریخی واقعات کو صرف اس لئے بیان نہیں کیا کہ یہ وہ واقعات ہیں جن کا تاریخ میں درج ہونا ضروری ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ان واقعات میں مخفی حکمتوں کو تلاش کیا جائے اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج سے سبق حاصل کر کے عمل کی راہیں متعین کی جائیں۔


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔