Topics

حضرت حزقیل علیہ السلام

عربی میں حزقیل کا ترجمہ ’’قدرت اللہ‘‘ ہے۔ 

حضرت حزقیل علیہ السلام بنی اسرائیل میں ’’ابن العجوز‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ ابن العجوز کے معنی ’’بڑھیا کے بیٹے‘‘ کے ہیں۔ کم عمری میں آپ کے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ جب نبوت سے سرفراز کئے گئے اس وقت آپ کی والدہ بہت ضعیف ہو چکی تھیں۔

حضرت حزقیل علیہ السلام کو جب مبعوث کیا گیا تو سرکشی اور نافرمانی عام تھی۔ کبر و نخوت، فخر و گھمنڈ اور احساس برتری نے لوگوں کے ذہنوں کو زنگ لگا دیا تھا۔ مفاد پرستی، اقربا پروری، جھوٹ، کینہ، بغض، حسد اور منافقت ان کا اوڑھنا بچھونا ہو گیا تھا۔ بے حیائی اور بدکاری پر فخر کرتے تھے۔ بے انصافی کر کے عقلی تاویلات پیش کرتے تھے۔ ظلم و جبر کر کے خوش ہوتے تھے۔ باپ دادا کے رسم و رواج ’’مذہب‘‘ بن گئے تھے۔ تفرقے بن گئے تھے۔ مذہب کے ٹھیکہ داروں نے اجارہ داریاں قائم کر لی تھیں۔ قوم اتنے فرقوں میں بٹ گئی تھی کہ ان کا شمار ممکن نہیں رہا تھا۔ توحید کی جگہ شرک و بت پرستی نے لے لی تھی۔ ان کے کانوں اور دلوں پر مہر لگ گئی تھی۔ آنکھوں پر دبیز پردہ پڑ گیا تھا اور اللہ کے تصور سے ذہن خالی ہو گیا تھا۔

حضرت حزقیل علیہ السلام نے ایسے نامساعد حالات میں توحید کا پرچار کیا۔ دین کی حقیقی روح سے قوم کو آگاہ کیا۔ سچائی اور راست بازی کی تعلیم دی اور لوگوں کو برے کاموں سے بچنے کی تلقین کی۔ صراط مستقیم پر قائم رہنے کی ہدایت کی۔ حضرت حزقیل علیہ السلام نے قوم کو مخاطب کر کے فرمایا!

’’گناہوں سے باز آ جاؤ۔ اور حق کا راستہ اپناؤ۔ ورنہ خدا کا قہر تم پر نازل ہو گا۔‘‘

وعظ و نصیحت اور تبلیغ کا لوگوں پر مطلق اثر نہیں ہوا اور قوم بدستور اپنی روش پر قائم رہی۔ لوگوں نے مذاق اڑایا اور حیلے بہانوں سے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ جب حضرت حزقیل علیہ السلام نے دیکھا کہ قوم کسی بھی طرح راہ راست پر آنے کیلئے تیار نہیں ہے اور ان کے دلوں پر مہر لگ گئی ہے تو آپ نے اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق قوم کو آنے والے عذاب اور ہولناک تباہی سے آگاہ کیا۔

صحیفہ حزقیل۔ باب ۷ میں حضرت حزقیل علیہ السلام کی پیش گوئی موجود ہے۔ جو شاہ یہودہ کے زمانے میں حرف بہ حرف پوری ہوئی۔

’’خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ ملک خون ریزی کے گناہوں سے پر ہے اور شہر ظلم سے بھرا ہوا ہے۔ پس میں غیر قوموں میں سے بدترین کو لاؤں گا۔ وہ ان کے گھر کے مالک ہونگے اور میں زبردستوں کا گھمنڈ مٹا دوں گا اور ان کے مقدس مقام ناپاک کئے جائیں گے۔ ہلاکت آئے گی۔ وہ سلامتی کو ڈھونڈینگے۔ پر نہ پائینگے۔ بلائیں نازل ہونگی تب وہ نبی کی بشارت کی تلاش کرینگے۔ لیکن شریعت کاہن سے اور مصلحت، بزرگوں سے جاتی رہے گی۔ اور رعیت کے ہاتھ کانپیں گے۔ میں ان کی روش کے مطابق ان سے سلوک کروں گا اور ان کے اعمال کے مطابق ان کا فتویٰ دوں گا تا کہ وہ جانیں کہ خداوند میں ہوں۔‘‘

(صحیفہ حزقیل۔ باب ۷)

بنو کد نصر بادشاہ

۵۵۰ ؁ قبل مسیح میں بنو کد نصر بادشاہ نے پوری قوت سے بیت المقدس پر حملہ کیا۔ یہود خوفزدہ ہو کر قلعہ بند ہو گئے۔ سات سال تک محاصرہ جاری رہا۔ اس دوران شہر میں رسد ختم ہو گئی، سخت قحط پڑا اور وبا پھیل گئی۔ بالآخر مجبور ہو کر ایک رات لوگ شہر سے نکل کر بھاگے۔ مگر بنو کد نصر کی فوجوں نے تعاقب کر کے ان کو قتل کر دیا۔ پورا یروشلم خاک و خون میں لت پت ہو گیا۔ بیت المقدس کو شدید نقصان پہنچا۔ شاہ یہودہ گرفتار ہو گیا۔ بنو کد نصر نے اس کے بیٹوں کو اس کے سامنے ذبح کروا دیا۔ شاہ یہودہ کی آنکھیں نکال دی گئیں اور زنجیروں میں جکڑ کر اسے بابل لے جایا گیا۔

حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ بنی اسرائیل کی ایک بہت بڑی جماعت نے دین کی سربلندی کے لئے جہاد سے انکار کیا اور موت کے خوف سے بھاگ کر ایک دور دراز وادی میں پناہ گزیں ہو گئے۔ یہ بات اللہ تعالیٰ کو ناپسند آئی اور موت ان پر غالب آ گئی۔

حضرت حزقیل علیہ السلام جب اس آبادی سے گزرے تو انہیں بہت افسوس ہوا اور اللہ تعالیٰ کے حضور ان مردہ لوگوں کے لئے دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر حضرت حزقیل علیہ السلام کی دعا قبول کی اور ان لوگوں کو دوبارہ زندہ کر دیا۔

’’تو نے نہ دیکھے وہ لوگ جو نکلے اپنے گھروں سے موت کے ڈر سے اور وہ ہزاروں تھے۔ پھر کہا اللہ نے ان کو مر جاؤ۔ پھر ان کو زندگی دی۔ اللہ تو فضل رکھتا ہے لوگوں پر۔ لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔‘‘

(سورۃ البقرہ۔ ۲۴۳)

حضرت حزقیل علیہ السلام نے انجیل برناباس میں سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کی بشارت دی ہے۔

حضرت حزقیل علیہ السلام نے عمر کا آخری حصہ بابل میں گزارا اور وہیں انتقال فرمایا۔ آپ کی قبر مبارک دجلہ کے قریب ہے۔

حکمت

بغض و عناد، حسد ، طمع، لالچ، حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر، دنیا کا حصول، فخر و مباہات، گھمنڈ اور غرور، نا انصافی، حق تلفی، خوں ریزی، نئی نئی لا علاج بیماریاں، عدم تحفظ، خوف، دہشت گردی، علمائے امت میں اختلاف، دین کی بے حرمتی، مساجد میں قتل، والدین کی نافرمانی، رشوت، چور بازاری، ملاوٹ اور بے حیائی کو دیکھا جائے تو موجودہ دور پہلے دور سے زیادہ گناہ آلود ہے۔ اب پیغمبر نہیں آئے گا۔ جو عذاب سے ڈرائے لیکن اللہ کا نظام مکمل اور مربوط نظام ہے۔ اللہ کی سنت میں تبدیلی ہوتی ہے نہ تعطل واقع ہوتا ہے۔ بے شک رسول اللہﷺ شافع المذنبین ہیں اور رحمت اللعالمین ہیں لیکن اللہ کے رسول ﷺ اللہ کے نظام پر عمل کرتے ہیں۔ اس وقت مذاہب عالم کا جو حال ہے اور اسلام کی تاویلات کر کے جس طرح بے حرمتی کی جا رہی ہے۔ یہ اللہ کی ناراضگی کو کھلے عام دعوت دینا ہے۔ علمائے کرام، مذہبی پیشواؤں، دانش وروں اور اولی الباب حضرات و خواتین کی ذمہ داری ہے کہ پہلے خود اپنی اصلاح کریں اور پھر اپنے کنبہ قبیلے کو، پھر قوم کو اور پھر نوع انسانی کو متوجہ کریں کہ تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہمارے اوپر عذاب الٰہی آ جائے اور ہم کچھ بھی نہ کر سکیں۔ استغفراللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ۔

٭٭٭٭٭


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔