Topics

حضرت حواؑ کی تخلیق:

’’وہی ہے جس نے تم کو بنایا ایک جان سے اور اسی سے بنایا اس کا جوڑا کہ اسے آرام ملے۔‘‘ 

(سورۃ اعراف : ۱۸۹)

’’اور خداوند نے آدم پر گہری نیند بھیجی اور وہ سو گیا۔ اور اس نے اس کی پسلیوں میں سے ایک کو نکال لیا اور اس کی جگہ گوشت بھر دیا۔ اور خداوند اس پسلی سے جو اس نے آدم میں سے نکالی تھی ایک عورت بنا کر آدم کے پاس لایا۔‘‘ 

(کتاب پیدائش ، باب ۲:۲۱۔۲۲)

مونث، مذکر کا تخلیقی راز:

محققین کی رائے ہے کہ قرآن کریم صرف ’’حوا‘‘ کی تخلیق کا ذکر نہیں کر رہا بلکہ عورت کی تخلیق کے متعلق اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ وہ بھی مرد ہی کا حصہ ہے۔ اس کو اس طرح سمجھا جائے کہ آدم ؑ کے اندر عورت کا وجود تھا۔ اللہ نے جب چاہا کہ آدم ؑ کے دونوں رخوں کا مظاہرہ ہو تو عورت کے وجود کو آدم ؑ سے الگ کر دیا۔

علماء باطن کہتے ہیں کہ یہاں ہر شئے دو رخوں سے مرکب ہے۔ مرد کا وجود بھی دو رخوں پر قائم ہے اور عورت کا وجود بھی دو رخوں پر قائم ہے۔ عورت کے اندر مرد چھپا ہوا ہے اور مرد کے اندر عورت چھپی ہوئی ہے۔ اگر آدم کے اندر حوا نہ ہوتی تو حوا کی پیدائش ممکن نہیں تھی۔ دوسری مثال حوا کے اندر سے آدم کی پیدائش ہے جس کو آسمانی کتابوں نے ’’عیسیٰ‘‘ کا نام دیا ہے۔

ہر فرد دو پرت سے مرکب ہے۔ ایک پرت ظاہر اور غالب رہتا ہے اور دوسرا پرت مغلوب اور چھپا ہوا رہتا ہے۔ مرد ہو یا عورت دونوں دو دو رخوں سے مرکب ہیں۔ ایک ظاہر رخ اور ایک باطن رخ۔

عورت اس ظاہر رخ عورت کے خدوخال میں جلوہ نما ہو کر ہمیں نظر آتا ہے اور باطن رخ وہ ہے جو نظر نہیں آتا۔ اسی طرح مرد کا ظاہر رخ مرد کے خدوخال بن کر ہمارے سامنے آتا ہے اور باطن رخ وہ ہے جو مخفی رہتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مرد بحیثیت مرد جو نظر آتا ہے وہ اس کا ظاہر رخ ہے اور عورت بحیثیت عورت جو نظر آتی ہے وہ اس کا ظاہر رخ ہے۔ مرد کے ظاہر رخ کا متضاد باطن رخ ’’عورت‘‘ اس کے ساتھ لپٹا ہوا ہے اور عورت کے ظاہری رخ کے ساتھ اس کا متضاد باطن رخ ’’مرد‘‘ لپٹا ہوا ہے۔ افزائش نسل اور جنسی کشش کا قانون بھی ان ہی دو رخوں پر قائم ہے۔ عورت کے اندر باطن رخ مرد چونکہ مغلوب ہے اور غالب خدوخال میں نمودار ہو کر مظہر نہیں بنا اس لئے وہ غالب اور مکمل رخ کو حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس کے اندر جذب ہونے کے لئے بے قرار رہتا ہے۔ اسی طرح مرد کے اندر چھپا ہوا پرت ’’عورت‘‘ چونکہ مغلوب اور نامکمل ہے۔ اس لئے وہ بھی عورت کے ظاہری رخ سے ہم آغوش ہو کر اپنی تکمیل کرنا چاہتا ہے۔ علماء باطن فرماتے ہیں کہ قانون قدرت کے مطابق اگر ذہنی مرکزیت کسی ایک رخ پر قائم ہو جائے اور انسان کے اندر روح جسے قرآن نے ’’امر رب‘‘ کہا ہے۔ متحرک ہو جائے تو مغلوب پرت متشکل ہو جاتا ہے۔ 

یہی صورت حال حضرت آدم ؑ کے ساتھ بھی پیش آئی۔

ہابیل و قابیل:

ہابیل و قابیل حضرت آدم ؑ کے بیٹے تھے۔ قرآن میں حضرت آدمؑ کے ان دونوں بیٹوں کے ناموں کا ذکر نہیں ہے۔ صرف ’’ابن آدم‘‘ (آدم کے دو بیٹے) کہا گیا ہے۔ البتہ توراۃ میں ان کے یہی نام بیان کئے گئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت اس طرح ہے کہ انسانی دنیا میں اضافہ کے لئے حضرت آدم ؑ کے زمانے میں دستور یہ تھا کہ حضرت حوا سے توام (جڑواں) پیدا ہونے والے لڑکے اور لڑکی کا عقد دوسری بار پیدا ہونے والے توام بچوں کے ساتھ کر دیا کرتے تھے۔ اسی دستور کے مطابق قابیل اور ہابیل کی شادی کا معاملہ درپیش تھا۔ قابیل عمر میں بڑا تھا اور اس کی بہن اقلیمہ ہابیل کی بہن غازہ سے زیادہ حسین اور خوبرو تھی۔ اس لئے قابیل کو یہ انتہائی ناگوار تھا کہ دستور کے مطابق اس کی بہن کی شادی ہابیل کے ساتھ کی جائے۔ فساد ختم کرنے کے لئے حضرت آدمؑ نے یہ فیصلہ کیا کہ دونوں اپنی اپنی قربانی اللہ کے لئے پیش کریں جس کی قربانی قبول ہو جائے وہی اپنے ارادے کو پورا کر لینے کا مستحق ہے۔

توریت کے مطابق اس زمانے میں قربانی کا یہ الہامی دستور تھا کہ نذر و قربانی کی چیز کسی بلند جگہ پر رکھ دی جاتی اور آسمان سے آگ نمودار ہو کر اس کو جلا دیتی تھی۔ اس قانون کے مطابق ہابیل نے اپنے ریوڑ سے ایک بہترین دنبہ خدا کی نذر کیا اور قابیل نے اپنی کھیتی کے غلے میں سے گرم خوردہ غلہ قربانی کے لئے پیش کیا۔ روایت کے مطابق ہابیل کی قربانی قبول ہوئی۔ قابیل اپنی اس توہین کو برداشت نہ کر سکا اور اس نے غیظ و غضب میں آ کر ہابیل سے کہا کہ میں تجھ کو قتل کئے بغیر نہ چھوڑوں گا تا کہ تو اپنی مراد کو نہ پہنچ سکے۔ ہابیل نے جواب دیا!

’’میں تو کسی طرح تجھ پر ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا۔ باقی تیری جو مرضی آئے وہ کر۔ رہا قربانی کا معاملہ سو خدا کے ہاں تو نیک نیت ہی کی نذر قبول ہو سکتی ہے۔ وہاں بدنیت کی دھمکی کام آ سکتی ہے اور نہ بے وجہ کا غم اور غصہ۔‘‘

قابیل پر اس نصیحت کا الٹا اثرہوا اور اس نے مشتعل ہو کر اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا۔

قتل کے بعد قابیل حیران تھا کہ اس نعش کا کیا کرے۔ ابھی تک نسل آدم موت سے دوچار نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے حضرت آدمؑ نے مردے کے جسم کے بارے میں کوئی حکم الٰہی نہیں سنایا تھا۔ قرآن میں ہے کہ قابیل نے دفنانے کا عمل کوے سے سیکھا۔ اس نے دیکھا کہ کوے نے زمین کو کرید کرید کر گڑھا کھودا ہے۔ قابیل نے فیصلہ کیا کہ مجھے بھی اپنے بھائی کے لئے اسی طرح گڑھا کھودنا چاہئے اور بعض روایات میں ہے کہ کوے نے دوسرے مردہ کوے کو اس گڑھے میں چھپا دیا۔ قابیل نے یہ دیکھا تو اپنی ناکارہ زندگی پر بے حد افسوس کیا اور کہنے لگا کہ!

’’میں اس حیوان سے بھی گیا گزرا ہوں کہ اپنے جرم کو چھپانے کی اہلیت بھی نہیں رکھتا۔‘‘

بعد ازاں ندامت اور پچھتاوے کے احساس کے ساتھ اپنے بھائی کی نعش کو سپرد خاک کر دیا۔

اس واقعہ سے دو قسم کی طرز فکر کا پتہ چلتا ہے۔ ایک شیطانی طرز فکر اور دوسری رحمانی طرز فکر۔ قابیل کی طرز فکر شیطانی تھی جبکہ ہابیل کی طرز فکر رحمانی تھی۔ غصہ شیطانی طرز فکر کا انعکاس ہے۔ اس کے برعکس حلم و بردباری رحمانی طرز فکر کا پرتو ہے۔ شیطانی طرز فکر کے زیر اثر ہر عمل گھاٹے کا سودا ہے جبکہ رحمانی طرز فکر کے تحت انجام پذیر ہونے والے اعمال سرتاپاخیر ہیں۔

توریت کے مطابق حضرت آدمؑ نے ۹۳۰ برس عمر پائی۔ آپ کے زمانے میں نسل انسانی نے علم طب، علم حساب اور علم موسیقی سے روشناسی حاصل کی۔ زمین پر پہلی بار زراعت بھی آپ نے شروع کی۔

’’خداوند خدا نے باغ عدن سے باہر کر دیا تا کہ وہ اس زمین کی طرف واپس چلا جائے جس سے وہ لیا گیا تھا اور کھیتی باڑی کرے۔‘‘ (توریت)

زمین پر اترنے کے بعد حضرت آدمؑ نے گزر بسر کے لئے کھیتی باڑی شروع کی تھی۔ ماہرین آثار قدیمہ نے جو اولین اوزار اور ہتھیار دریافت کئے ہیں وہ پتھر سے بنائے ہوئے ہیں اور تہذیب کے اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جسے پتھر کا زمانہ کہا جاتا ہے۔

زمین پر اولین تہذیب کی بنیاد حضرت آدم ؑ نے ڈالی اور آپ نے ہی پہلے پہل پتھروں سے مختلف اوزار اور ہتھیار بنائے۔ آگ کا استعمال بھی آپ ہی کی دریافت ہے۔

حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ سے کئی اولادیں ہوئیں۔ ہابیل اور قابیل کے علاوہ تیسری اولاد کا نام ’’شیث‘‘ ہے۔

لفظ ’’شیث‘‘ کے لغوی معنی ’’عطیہ خداوندی‘‘ ہے۔ حضرت آدم ؑ کے بعد آپ پہلے نبی ہوئے۔ توریت ، کتاب پیدائش، باب ۴ میں لکھا ہے کہ آپ ؑ حضرت آدم ؑ کی شکل و صورت پر تھے۔ ۹۱۲ سال عمر پائی جس میں سے ۱۱۲ سال تک مرتبہ پیغمبری پر فائز رہے۔ 

آپ ؑ صلح و آشتی  کا درس دیتے تھے۔ قوم آپؑ سے بہت عقیدت رکھتی تھی۔ حضرت شیثؑ کی امت نے حضرت شیث ؑ کے انتقال کے بعد بھی اپنے پیغمبر کی تعلیمات کو حرزِ جاں بنائے رکھا۔


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔