Topics

ارتقاء

ہمارے زمانہ کو ارتقاء کے عروج کا زمانہ کہا جاتا ہے مادے پر ریسرچ اور انسانی ایجادات کا سلسلہ شعوری ارتقاء کا باعث بنتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسانی ایجادات موجود ہونے سے پہلے کہاں تھیں؟ اگر تسلیم کر لیا جائے کہ ایجاد سے پہلے ان کا وجود نہیں تھا تو ریسرچ کا خیال کیسے آیا؟ اصل بات یہ ہے کہ خیال ہی ریسرچ اور ایجادات کا فارمولہ ہے، جس طرح بغیر بیج کے پودا نہیں اگتا اسی طرح بغیر خیال کے کوئی عمل صادر نہیں ہوتا جس طرح بیج کے اندر پورا درخت بند ہے اسی طرح خیال کے اندر پوری ریسرچ محفوظ(Record) ہے۔ بیج کو ہم درخت کے عالم کا نکتہ کہتے ہیں، اسی مناسبت سے خیال کو ہم شئے کے علم کی روشنی کہتے ہیں۔ 

کائنات کی ہر شئے اور ہر فرد کا دماغ علم کی روشنی کو جذب کر رہا ہے اور دماغ میں یہ روشنیاں خیال بن کر وارد ہوتی ہیں، خیال جب عملی حدود میں پہنچتا ہے تو خیال کے اندر کا خاکہ ظاہری آنکھ اور حواس کے دائرہ میں آ جاتا ہے۔ ظاہری حواس کے دائرے سے علم کی روشنی دوبارہ پھر شعور کی گہرائی میں ریکارڈ بن کر محفوظ ہو جاتی ہے، اس محفوظ شدہ ریکارڈ کو آدمی جب چاہے اپنے ارادے کے ساتھ شعور کی گہرائی یا حافظہ سے شعور کی سطح پر لا سکتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ کائنات کے افراد کے دماغ سے لہریں نکل بھی رہی ہیں اور جذب بھی ہو رہی ہیں اور یہی مخلوق کی زندگی ہے۔

ایجادات کا ذہن

انسان اس صفت سے آراستہ ہے کہ وہ ماورائی مخلوق کے ذہن کی لہریں وصول کر لیتا ہے۔ یہی لہریں ریسرچ کرنے کی تحریک پیدا کرتی ہیں۔ تمام سائنسی علوم اور ریسرچ کہیں محفوظ ضرور ہیں جہاں یہ علم موجود ہے وہ روشنی کا عالم ہے اگر اس روشنی میں فکر انسانی داخل ہو جائے تو آدمی علوم کی حقیقت جان لیتا ہے اور نئی نئی ایجادات کر لیتا ہے ان علوم کو سیکھنے اور جاننے کے لئے ایک مدت درکار ہے کیونکہ عقل و شعور کی تربیت فکشن حواس میں ہوئی اگر کوئی نکتہ عقل میں نہ آئے تو آدمی اسے ماننے سے انکار کر دیتا ہے اس کے برخلاف روحانی آدمی اپنے مشاہدہ کی بنا پر اس کا فہم رکھتا ہے کہ کائنات ڈسپلے ہو رہی ہے، روحانی علوم جب عالم ناسوت میں اپنا مظاہرہ کرتے ہیں تو مادی حواس ان سے واقف ہو جاتے ہیں حواس کی تھیوری ہے کہ مظاہرات میں ارادہ کام کر رہا ہے فطری تخلیقات اور انسان کی ایجادات میں یہ فرق ہے کہ فطرت اسباب و وسائل کے بغیر تخلیق کرتی ہے اور انسان فطرت کے پیدا کردہ وسائل و اسباب استعمال کر کے کوئی ایجاد کرتا ہے۔ ماورائی علوم کی روشنیاں، روز اول سے فطرت میں موجود ہیں کوئی موجد ان ہی روشنیوں میں تفکر کر کے ایجاد کرتا ہے۔ علم حقیقی ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ کائنات اور کائنات میں لاشمار دنیائیں روشنیوں اور نور کے تانے بانے سے بنی ہوئی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دو معجزات عطا فرمائے تھے، ایک عصا اور دوسرا ید بیضا۔ عصا میں یہ وصف تھا کہ وہ اللہ کے رسول کے حکم سے ماہیت قلب کر لیتا ہے۔ فرعون کے دربار میں پھنکارتے ہوئے سانپ ہر طرف پھیل گئے اور زمین پر رینگنے لگے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے فرش پر اپنا عصا رکھ دیا دیکھتے ہی دیکھتے ’’عصا‘‘ ایک بہت بڑا اژدھا بن گیا اور دربار میں بڑی بڑی تیز زبان نکالتے ہوئے شوں شوں کرتے سانپوں کو نگل گیا۔

کس طرح نگل گیا؟ ہماری دنیا عناصر کی دنیا ہے، عناصر میں چار عناصر بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ دنیا میں ڈیڑھ سو سے زیادہ عناصر دریافت ہو چکے ہیں، لیکن یہ سارے عناصر چار عناصر کی مزید تحقیق ہیں۔ پانی، ہوا، آگ، خاک، عناصر سانپ اور عصا میں موجود ہیں یعنی لکڑی اور سانپ دونوں میں عناصر مشترک ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب زمین پر عصا رکھا تو ان کے ارادے کے تحت لکڑی میں سانپ میں کام کرنے والے عناصر متحرک ہو گئے اور عصا اژدھا بن گیا یہی قانون دریا میں عصا مارنے کے بعد راستہ بن جانے کا ہے، پانی، آکسیجن اور ہائیڈروجن کا مرکب ہے، پانی کے بغیر درخت نہیں اگتے، لکڑی کتنی ہی خشک ہو جائے اس میں پانی کا عنصر کتنا ہی قلیل ہو موجود ضرور رہتا ہے، اللہ تعالیٰ کی نصرت کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دریا کی سطح پر عصا مارا تو مطلوبہ مقامات میں سے آکسیجن اور ہائیڈروجن فضا میں اڑ گئی اور جب بنی اسرائیل نے دریا پار کر لیا تو آکسیجن اور ہائیڈروجن دوبارہ خالی جگہ پر آ گئی اور پانی، پانی ہو گیا، آکسیجن اور ہائیڈروجن فضا میں کیسے اڑ گئی؟ ایسے اڑ گئی کہ لکڑی کے اندر آگ کا عنصر غالب آ گیا۔ لوہا آگ بنا کر پانی کے تشلے میں ڈبو دیا جائے تو پانی اڑ جاتا ہے۔ قدرت پر شک کرنے والے لوگ سوال کرسکتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ارادے میں اتنی قوت کیسے آ گئی کہ لاٹھی مارنے سے بنی اسرائیل کے لئے بارہ راستے بن گئے اس سلسلے میں قرآن پاک نوع انسانی کی رہنمائی کرتا ہے:

’’ہم نے انسان کو بجتی مٹی یعنی خلاء سے پیدا کیا اور اس میں اپنی روح پھونک دی۔‘‘

روح کے بارے میں قرآن وضاحت کرتا ہے:

’’اے پیغمبر حضرت محمدﷺ لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپﷺ بتا دیجئے کہ روح میرے رب کے امر سے ہے اور ہم نے اس کو قلیل علم سکھایا ہے۔‘‘

(سورۃ بنی اسرائیل۔ ۸۵)

قرآن اس فارمولے کی مزید تشریح کرتا ہے:

’’جب اس کا امر چاہتا ہے کہ کسی چیز کو تخلیق کرے تو کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ اور تخلیق ہو جاتی ہے۔‘‘

(سورٰ یٰسین۔ ۸۲)

انرجی کا بہاؤ

خلاصہ کلام یہ ہے کہ:

انسان خلاء ہے، خلاء میں روح ہے، روح امر رب ہے اور امر رب یہ ہے کہ جب وہ کسی شئے کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ اور وہ ہو جاتی ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام جلیل القدر پیغمبر صاحب کتاب اور اللہ کے قرب سے آشنا تھے، کلیم اللہ تھے وہ تخلیق کا فارمولا جانتے تھے جیسے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تخلیقی فارمولے کے تحت حکم دیا اس پر عمل درآمد ہو گیا۔

پیغمبر کی روح اعظم تک رسائی ہوتی ہے اور وہ روح اعظم میں انوار و تجلیات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ان مشاہدات کی بنا پر پیغمبر کے مادی اجسام بھی نور علی نور ہو جاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب اللہ کے حکم سے ارادہ فرماتے تھے۔ نسمہ مطلق کا نور نسمہ مفرد میں منتقل ہو کر نسمہ مرکب میں ذخیرہ ہو جاتا تھا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کمرے میں ساٹھ (۶۰) واٹ کا بلب لگا ہوا ہے اس کو اتار کر چھ سو(۶۰۰) واٹ کا بلب لگا دیں اور چھ سو واٹ کا بلب اتار کر ایک ہزار (۱۰۰۰) واٹ کا بلب لگا دیا جائے تو کمرہ روشنی سے چکا چوند ہو جاتا ہے اور بلب پر نظر نہیں ٹھہرتی، جب کہ زیادہ واٹ کا بلب روشن کرنے کے لئے تار، سوئچ ہولڈر کوئی چیز تبدیل نہیں کرنا پڑتی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام جب بغل میں ہاتھ رکھ کر باہر نکال لیتے تھے تو الیکٹرک سٹی کے اصول کے مطابق ان کے ہاتھ میں دوڑنے والا کرنٹ ہزاروں گنا زیادہ ہو جاتا تھا جیسے سوئچ آن کرنے سے ہزاروں واٹ کا بلب روشن ہو جاتا ہے، انسانی ساخت میں جہاں جہاں جوڑ ہیں وہاں دوران خون رک کر آگے بڑھتا ہے اور جوڑوں میں انرجی کا بہاؤ زیادہ ہوتا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام تخلیقی فارمولے کے مطابق جب بغل میں ہاتھ رکھتے تھے تو انرجی کا بہاؤ ہتھیلی میں منتقل ہو جاتا تھا جس سے ہاتھ سورج کی طرح روشن ہو جاتا تھا۔

٭٭٭٭٭


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔