Topics

حضرت صالح علیہ السلام

’ارم‘سام بن نوح کا پانچواں بیٹا تھا۔ عاد و ثمود دونوں ارم کے پوتے تھے، عاد کی اولاد قوم عاد کے نام سے مشہور ہوئی جس کی طرف حضرت ہودؑ پیغمبر بنا کر بھیجے گئے۔ عاد اولیٰ کی ہلاکت کے بعد حضرت ہودؑ کے ساتھ بچ جانے والے لوگ ’’عادثانیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے اور سامی اقوام کی یہ شاخ اپنے جد اعلیٰ ثمود کی مناسبت سے قوم ثمود کہلائی۔

حضرت صالح علیہ السلام کا رنگ سرخ و سفید تھا، سڈول جسم اور لمبا قد تھا، سر کے بال باریک تھے، بالوں میں بھورا پن نمایاں تھا، بال اوپر کی جانب اٹھے ہوئے رہتے تھے۔

’’اور وہ یاد کرو جب تم کو سردار کیا عاد کے پیچھے اور ٹھکانہ دیا زمین میں بناتے ہو نرم زمین میں محل اور تراشتے ہو پہاڑوں میں گھر۔‘‘

(سورۃ اعراف۔ ۷۴)

ثمود کا دارالحکومت ’’حجر‘‘ تھا جسے آج کل مدائن صالح بھی کہتے ہیں۔ قوم ثمود نہایت طاقتور قوم تھی۔ لوگ طویل العمر تھے، سنگ تراشی فن اور تعمیرات میں ماہر تھے، یہ لوگ پہاڑ کاٹ کر نہایت مہارت سے مکانات بناتے تھے۔

’’تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے کیا برتاؤ کیا اونچے ستونوں والے عاد و ارم کے ساتھ جن کے مانند کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی تھی اور ثمود کے ساتھ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں اور میخوں والے فرعون کے ساتھ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی اور ان میں بہت فساد پھیلایا تھا، آخر کار تمہارے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسا دیا، حقیقت یہ ہے کہ ہمارا رب گھات لگائے ہوئے ہے۔‘‘

(سورۃ فجر: ۶۔۱۴)

شاہی محل

ان کی بنائی ہوئی بستیوں کے کھنڈرات، شام اور حجاز کے درمیان آج بھی موجود ہیں۔ آثار قدیمہ کے ماہرین نے ایک ایسا مکان تلاش کیا جسے شاہی محل کہا جا سکتا ہے۔ اس محل میں متعدد کمرے اور ایک بڑا حوض تھا اور یہ پوری عمارت پہاڑ کاٹ کر بنائی گئی تھی، قدیم کتبات اور تحریروں سے سامی آبادیوں سے متعلق معلومات ملی ہیں ہر آبادی میں دو بڑی عمارتیں ہوتی تھیں، ایک بیت الحکومتہ اور ایک ہیکل۔ آبادی کا حاکم بیت الحکومتہ میں رہتا تھا اور ہیکل آبادی کے کاہن کا مسکن تھا دونوں باہمی شراکت سے آبادی پر حکمرانی کرتے تھے۔ ثمود خوشحال قوم تھی، مال و دولت کی فراوانی تھی، معاشی بہتری اور آسودہ حالی کی وجہ سے عیش و عشرت کا ہر سامان انہیں میسر تھا، اپنے بڑوں کی طرح یہ لوگ طویل القامت اور لمبی عمر والے تھے، جسمانی قوت اور دولت و ثروت میں انہیں شہرت حاصل تھی، نعمتوں اور وسائل کی بہتات اور طاقت و قوت کے نشے میں یہ لوگ بدمست ہو گئے تھے، اپنے زور بازو پر انہیں ناز تھا، ہر شئے کا حصول اپنی محنت کا نتیجہ قرار دیتے تھے، مادی عوامل پر ان کا انحصار اس قدر زیادہ تھا کہ اگر کسی شئے کا ثبوت فراہم نہیں ہوتا تھا تو اس کے وجود سے انکار کر دیتے تھے، اس طرز فکر کی وجہ سے اللہ وحدہ لاشریک اور نبیوں کی تعلیمات سے منحرف ہو گئے تھے، اپنے لئے معبود تراشتے تھے اور مرنے کے بعد کی زندگی سے ان کا یقین اٹھ گیا تھا، کفر و الحاد میں قوم جب حق و معرفت کی روشنی سے دور ہو گئی تو ہدایت و رہنمائی کے لئے اللہ کریم نے اپنے برگزیدہ بندے حضرت صالح کو مبعوث کیا۔

’’اور ثمود کی طرف بھیجا ان کا بھائی صالح۔ بولا، اے قوم! بندگی کرو اللہ کی کوئی نہیں تمہارا خالق و مالک اس کے سوا۔‘‘ 

(سورۃ اعراف۔ ۷۳)

اس زمانے میں حضرت ہودؑ کی تعلیمات پر کاربند افراد کی تعداد بہت کم ہو گئی تھی۔ دارالحکومت حجر کے ایک طرف انہوں نے عبادت گاہ بنا رکھی تھی، عبادت گاہ کے سامنے چھوٹی بڑی پہاڑیاں تھیں جن کو تراش کر قوم کے سرداروں نے مکانات بنا رکھے تھے، حجر کی آبادی میں باغات بہت تھے، کھیت کھلیان تھے اور کھجوروں کے درخت تھے، آبادی کے نزدیک پہاڑوں کے دامن میں صاف شفاف پانی کا چشمہ بہہ رہا تھا، چشمہ کے اطراف وسیع ہری بھری چراگاہ تھی، آبادی کے دوسری طرف بادشاہ جندع کا محل تھا جو پہاڑ کاٹ کر بنایا گیا تھا۔

حضرت صالح علیہ السلام آبادی سے باہر عبادت گاہ میں زیادہ وقت گزارتے تھے، عبادت کے معمولات اور نیک طبیعت کی وجہ سے لوگ ان کی عزت و توقیر کرتے تھے، حضرت صالح علیہ السلام نے لوگوں کو جمع کر کے کہا:

’’خدا کی بندگی کرو اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے، جنہیں تم نے معبود بنا رکھا ہے وہ ہرگز مالک و مختار نہیں ہیں خدا وہ ہے جس نے یہ کائنات بنائی، مجھے تخلیق کیا اور تمہیں پیدا کیا اسی نے قوم عاد کے بعد زمین پر تمہیں ان کا جانشین بنایا ہے اور تمہیں یہ صلاحیت دی ہے کہ پہاڑ کاٹ کر مکانات بناتے ہو۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو،جھوٹے خداؤں کو چھوڑ کر واحد ذات اللہ کی عبادت کرو، اپنے گناہوں کی معافی مانگو، وہ التجائیں قبول کرنے والا ہے۔‘‘


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔