Topics

حکمت ۔ داؤد

آوازیں ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ آواز آپس میں رابطے کا ذریعہ اور معلومات کے تبادلے کا ایک طریقہ ہے۔ آواز کی بدولت ہم بہت ساری چیزوں کو جانتے ہیں اور بہت سی باتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ درختوں میں بیٹھی ہوئی چڑیوں کی چہکار، ہوا کی سائیں سائیں، کوؤں کا کائیں کائیں کرنا، کوئل کی کوک، بلبل کا ترانہ، پنگوڑے میں کھیلتے بچوں کی کلکاریاں، گلی میں پھرنے والے کی صدا، کارخانوں میں متحرک مشینوں کی گڑگڑاہٹ، ہوائی جہازوں کا شور اور لاتعداد دوسری آوازیں ہماری سماعت سے ٹکراتی رہتی ہیں۔ 

لیکن بہت سی آوازیں ایسی بھی ہیں جو ہمیں سنائی نہیں دیتیں۔ یہ آوازیں ہماری سماعت سے تو ٹکراتی ہیں مگر ہمارے کان انہیں نہیں سنتے ان آوازوں کی ویو لینتھ ہماری عام سماعت سے زیادہ یا کم ہوتی ہے۔

پیچیدہ امراض کی تشخیص و علاج، صنعت و حرفت اور تحقیق و تلاش کے لئے الٹرا ساؤنڈ ویوز کا استعمال اب عام ہو گیا ہے۔ صدائے بازگشت کے اصول اور آواز کے ارتعاش کی بنیاد پر یہ لہریں کام کرتی ہیں۔ یہ مختلف حالتوں کے درمیان مادے میں امتیاز کر سکتی ہیں۔

سائنس نے انکشاف کیا ہے کہ انسان کی سماعت کا دائرہ، بیس ہرٹز(20 Hertz) سے بیس ہزار ہرٹز فریکوئنسی تک محدود ہے۔ 

جبکہ ورائے صوت موجوں کی فریکوئنسی بیس ہزار ہرٹز (Hertz) سے دو کروڑ ہرٹز(Hertz) تک ہو سکتی ہے۔ اس لئے ہم ان آوازوں کو سن نہیں سکتے۔

موجوں کی دو بڑی اقسام ہیں۔ ایک وہ جن میں ذرات سکڑتے اور پھیلتے ہوتے آگے بڑھتے ہیں اور دوسری قسم وہ ہے جو آگے بڑھتے ہوئے اوپر نیچے حرکت کرتی ہے۔ موجوں کی اقسام کی تقسیم فریکوئنسی اور طول موج کی بنیاد پر کی گئی ہے۔

موج مخصوص فاصلے کو اوپر نیچے حرکت کرتے ہوئے طے کرتی ہے۔ یہ اس کا طول موج کہلاتا ہے۔ طول موج میں ایک حرکت اوپر کی طرف ہوتی ہے اور ایک حرکت نیچے کی جانب ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ اوپر اور ایک مرتبہ نیچے دونوں حرکتیں مل کر ایک چکر (Cycle) پورا کرتی ہیں اور ایک سیکنڈ میں کسی موج کے جتنے سائیکل گزر جاتے ہیں وہ موج کی فریکوئنسی کہلاتی ہے۔ طول موج زیادہ ہو تو فریکوئنسی کم ہوتی ہے۔ جبکہ طول موج کم ہونے کی صورت میں فریکوئنسی زیادہ ہوتی ہے۔

فریکوئنسی اگر بہت بڑھ جائے تو لہریں یا موجیں شعاعیں بن جاتی ہیں۔ جو سیدھی چلتی ہیں۔ کم طول موج اور زیادہ فریکوئنسی ہونے کی وجہ سے ان لہروں کی کسی چیز میں سے گزر جانے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔

قرآن کریم میں کئی جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر چیز ہماری حمد و ثناء بیان کرتی ہے یعنی کائنات میں موجود ہر شئے بولتی، سنتی اور ایک دوسرے کو پہچانتی ہے۔

’’ساتواں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں اللہ کی عظمت بیان کر رہی ہیں جو آسمان اور زمین میں ہیں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔‘‘

(سورۃ بنی اسرائیل۔ ۴۴)

حضرت داؤد علیہ السلام کے ہمراہ پرندوں اور پہاڑوں کی تسبیح کرنے کی توجیہہ میں شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ قوی ہمت والا نفس جب کسی کیفیت سے بھر جاتا ہے تو اس کے قریب رہنے والے نفوس اور ان کی طبیعت میں بھی اس کی کیفیت سرائیت کرتی ہے اور جب وہ کسی پتھر یا درخت سے وقت کے موافق کوئی معرفت سنتا ہے تو اس کی قوت دوسرے لوگوں میں بھی سرایت کرتی ہے اور پھر وہ بھی اسی طرح سنتے ہیں جس طرح اس نے سنا تھا۔

’’اور ہم نے دی داؤد کو اپنی طرف سے بڑائی، اے پہاڑو پڑھو اس کے ساتھ اور اڑتے پرندو۔ اور نرم کر دیا ہم نے اس کے آگے لوہا کہ بنائے کشادہ زرہیں اور اندازے سے جو ڑ کر کڑیاں، اور کرو تم سب سے کام بھلا میں جو کچھ کرتے ہو دیکھتا ہوں۔‘‘

(سورۃ سبا: ۱۰۔۱۱)

۱۔ علم لدنی کے عالم قلندر بابا اولیاءؒ کتاب تذکرہ تاج الدین بابا میں لکھتے ہیں:

’’یہ قانون بہت فکر سے ذہن نشین کرنا چاہئے کہ جس قدر خیالات ہمارے ذہن میں دور کرتے رہتے ہیں ان میں بہت زیادہ ہمارے معاملات سے غیر متعلق ہوتے ہیں ان کا تعلق قریب اور دور کی ایسی مخلوق سے ہوتا ہے جو کائنات میں کہیں نہ کہیں موجود ہیں اس مخلوق کے تصورات لہروں کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔

انا کی لہروں کے بارے میں بھی چند باتیں فکر طلب ہیں۔ سائنسدان روشنی کو زیادہ سے زیادہ تیز رفتار قرار دیتے ہیں لیکن وہ اتنی تیز رفتار نہیں کہ زمانی و مکانی، فاصلوں کو منقطع کر دے البتہ انا کی لہریں لاتناہیت میں بیک وقت ہر جگہ موجود ہیں زمانی، مکانی فاصلے ان کی گرفت میں رہتے ہیں۔ 

۲۔ انسانوں کے درمیان ابتدائے آفرینش سے بات کرنے کا طریقہ رائج رہا ہے۔ آوازوں کی لہریں سننے والوں کو مطلع کرتی رہتی ہیں، دیکھا گیا ہے کہ گونگا آدمی اپنے ہونٹوں کی جنبش سے سب کچھ کہہ دیتا ہے۔ جانور آواز کے بغیر ایک دوسرے کو اپنا حال بتا دیتے ہیں۔ درخت بھی آپس میں گفتگو کرتے ہیں۔ یہ گفتگو صرف آمنے سامنے کے درختوں میں ہی نہیں ہوتی بلکہ دور دراز ایسے درختوں میں بھی ہوتی ہے جو ہزاروں میل کے فاصلے پر واقع ہیں۔ یہی قانون جمادات میں رائج ہے۔ کنکروں، پتھروں، چرند، پرند میں رائج ہے۔ مٹی کے ذرات میں بھی من و عن اس طرح تبادلہ خیال ہوتا ہے۔ حضرت داؤدؑ کے ساتھ چرند پرند اور پہاڑ اللہ کی حمد بیان کرتے تھے اس میں بھی وہی قانون کارفرما ہے۔

۳۔ ساری کائنات میں ایک ہی شعور کارفرما ہے اس کے غیب و شہود کی ہر لہر دوسری لہر کے معنی سمجھتی ہے چاہے یہ دونوں لہریں کائنات کے دونوں کناروں پر واقع ہوں۔ تفکر اور مسلسل توجہ کے ساتھ ہم پیغمبرانہ طرز فکر حاصل کر کے اپنے سیارے اور دوسرے سیاروں کے احوال سے باخبر ہو سکتے ہیں۔ انا کی لہروں کا علم حاصل کر کے چرند، پرند، اشجار، پہاڑ اور کائنات میں بسنے والی ایک مخلوق یا بے شمار مخلوقات کی زبان سمجھ سکتے ہیں۔ اللہ کے لئے جدوجہد کرنے اور مستقل مزاجی کے ساتھ مسلسل توجہ دینے سے ’’ذہن‘‘ کائناتی لاشعور میں تحلیل ہو جاتا ہے۔


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔