Topics
حضرت داؤدؑ کی وصیت کی تھی کہ مسجدِ اقصی ٰ کی تعمیر مکمل کی جائے وہ جنگی اور سیاسی حالات کی بنا پر اسے پورا نہیں کر سکے تھے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ارادہ فرمایا کہ مسجد کے چہار جانب ایک عظیم الشان شہر آباد کیا جائے اور مسجد کی تعمیر بھی از سر نو کی جائے، ان کی خواہش تھی کہ مسجد اور شہر کو بیش قیمت پتھروں سے بنوائیں، انہوں نے دور دراز علاقوں سے حسین اور بڑے بڑے پتھر منگوائے اور یہ خدمت انہوں نے جنات سے لی چنانچہ جنات دور دور سے خوبصورت اور بڑے بڑے پتھر جمع کر کے لاتے تھے اور بیت المقدس کی تعمیر کا کام کرتے تھے۔ بیس بیس ہاتھ لمبا چوڑا اور اونچا چبوترہ بنا کر اس پر عہد صندوق رکھا گیا تھا، پوری عمارت ساڑھے سات سال میں مکمل ہوئی۔
’’اس کے لئے بنائے جو وہ چاہتا، اونچے اونچے محل اور تصویریں اور بڑے بڑے حوضوں کے برابر لگن اور دیگیں اے آل داؤد!
شکر کرو اور میرے بندوں میں کم ہیں شکر والے۔‘‘
(سورۃ سبا ۱۳)
لنگر کے حوض جتنے بڑے کڑھاؤ تھے، جن میں کھانا پکتا تھا۔
جنات نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے بیت المقدس کے علاوہ اور بھی تعمیرات کیں اور بعض ایسی چیزیں بھی بنائیں جو اس زمانے کے لحاظ سے عجیب و غریب سمجھی جاتی تھیں۔ قرآن کریم میں ہے کہ:
’’اور تابع کئے شیطان کتنے جو اس کے لئے سمندر میں غوطہ لگاتے تھے (یعنی سمندر سے بیش قیمت چیزیں نکالتے تھے) اور اس کے علاوہ بہت سے کام انجام دیئے اور ہم ان کیلئے نگراں اور مہربان تھے۔‘‘
(سورۃ انبیاء۔ ۸۲)
’’اور جنات میں سے وہ تھے جو اس کے سامنے خدمت انجام دیتے تھے اس کے پروردگار کے حکم سے اور جو کوئی ان میں سے ہمارے حکم کے خلاف کجروی کرے ہم اس کو دوزخ کا عذاب چکھائیں گے ، وہ اس کیلئے بناتے تھے جو کچھ وہ چاہتا تھا، قلعوں کی تعمیر، ہتھیار اور تصاویر اور بڑے بڑے لگن جو حوضوں کی مانند تھے اور بڑی بڑی دیگیں جو اپنی بڑائی کی وجہ سے ایک جگہ جمی رہیں۔ اے آل داؤد! شکر گزاری کے کام کرو اور میرے بندوں میں سے بہت کم شکر گزار ہیں۔‘‘
(سورۃ سبا: ۱۱۔۱۲)
’’اور اکٹھے ہو گئے سلیمان کے لئے اس کے لشکر جنات میں سے، انسانوں میں سے، جانوروں میں سے اور وہ درجہ بہ درجہ کھڑے کئے جاتے ہیں۔‘‘
(سورۃ نمل۔ ۱۷)
تیس ہزار مزدور
مسجد اقصیٰ کی تعمیر میں تیس ہزار مزدوروں نے کام کیا۔ برآمدے، بارہ دریاں، دیواریں، صنوبر کی لکڑی سے بنائی گئیں۔ چندن کی لکڑی سے طولاً عرضاً بیس بیس ہاتھ لمبا، چوڑا اور اونچا چبوترا بنا کر اس پر عہد صندوق رکھا گیا، ہزاروں افراد پہاڑوں سے پتھر کاٹنے پر معمور تھے ایک لاکھ سنگ تراش پتھروں کو خوبصورت ڈیزائنوں میں تراشتے تھے، ہزاروں ہاتھی اور اونٹ پتھر ڈھونے میں استعمال ہوئے لعل و یاقوت، زبر جد، فیروزہ اور دیگر قیمتی پتھر اور موتی سمندروں کی تہہ سے نکال کر لانے کے لئے بہت سارے جنات کی ڈیوٹی تھی، سات سو چوراسی گز طویل اور چار سو پچپن گز عریض مسجد میں چھ سو چوراسی مرصع ستون بنائے گئے تھے، چار ہزار قندیلیں روشن کی جاتی تھیں۔ سات سو فراش صفائی کے لئے مقرر کئے گئے تھے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کو جانوروں کی بولی کا فہم عطا فرمایا گیا تھا۔ آپ ایک مرتبہ جن و انس اور حیوانات کے عظیم الشان لشکر کے جلوس میں کسی جگہ تشریف لے جا رہے تھے۔ بے شمار مخلوق کے باوجود لشکر میں کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ اپنے درجے اور مرتبے کے خلاف آگے پیچھے ہو کر بے ترتیبی کا مرتکب ہو سکے، لشکر کے سب فرمانبردار افراد حضرت سلیمان علیہ السلام کی عظمت اور ہیبت سے اپنے اپنے قرینہ سے فوج در فوج چل رہے تھے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔