Topics

حضرت یعقوب علیہ السلام

حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت اسحٰق علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت ابراہیمؑ کے پوتے ہیں۔ آپ کی والدہ کا نام رفقہ ہے۔ 

حضرت یعقوبؑ حضرت اسحٰقؑ کی شادی کے بیس برس بعد پیدا ہوئے۔ 

’’اور بخشا ہم نے اس کو اسحٰق اور یعقوب دیا انعام میں۔‘‘

(سورۃ الانبیاء۔ ۷۲)

حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل ہے۔ اسرائیل عبرانی زبان کا لفظ ہے جو ’’اسرا‘‘ یعنی ’’عبد‘‘ اور ’’ایل‘‘ یعنی ’’اللہ‘‘ کے الفاظ کا مرکب ہے۔عربی میں اسرائیل کا ترجمہ ’’عبداللہ‘‘ ہے۔ قرآن حکیم میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے ساتھ ’’اسباط‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ سبط عربی زبان میں اس درخت کو کہا جاتا ہے جس کی بہت سی شاخیں ہوں۔ بنی اسرائیل کے تمام انبیاء حضرت یعقوب علیہ السلام (اسرائیل) کی اولاد ہیں۔ اسباط اسی طرف اشارہ ہے۔

آپ کے ساتھ ایک جڑواں بھائی بھی پیدا ہوئے ان کا نام عیسو رکھا گیا۔ عیسو کے بدن پر لمبے لمبے بال تھے اور ان کا رنگ سرخ تھا۔ 

ان کا لقب ادوم تھا۔ ان کی نسل سے بہت بڑا قبیلہ ’’بنو ادوم‘‘ وجود میں آیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی تربیت حضرت اسحٰقؑ کی زیر نگرانی کنعان میں ہوئی۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کے والد حضرت اسحٰق علیہ السلام اس بات سے واقف تھے کہ رشد و ہدایت کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے فرزند حضرت یعقوب علیہ السلام کو چن لیا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو باپ کی توجہ اپنے بھائی کی نسبت زیادہ حاصل تھی۔ عیسوا دوم حضرت یعقوب علیہ السلام کے برادر توام تھے اور آپ سے پہلے ان کی ولادت ہوئی تھی۔ عیسو ادوم شکار کرنے میں ماہر تھے اور شکار کا گوشت بھون کر اپنے والد کو کھلاتے تھے۔ حضرت اسحٰقؑ نے ایک روز عمدہ کھانے کی فرمائش کی۔ عیسو ادوم شکار کرنے چلے گئے حضرت یعقوب علیہ السلام نے گھر پر کھانا بنایا اور باپ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ حضرت اسحٰقؑ نے خوش ہو کر خیر و برکت کی دعا دی۔

عیسوادوم جب گھر واپس آئے تو انہیں رنج ہوا کہ بھائی نے پہلے ہی باپ کی خدمت میں اچھا اور مزیدار کھانا پیش کر دیا۔ ابلیس تو رہتا ہی تاک جھانک میں ہے اس نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ جو خیر و برکت انہیں ملنے والی تھی ان کے بھائی یعقوبؑ نے اس سے انہیں محروم کر دیا۔ بشری کمزوری کے تحت وہ اپنے بھائی حضرت یعقوبؑ سے ناراض ہو گئے۔ ناراضگی جب زیادہ ہو گئی تو حضرت یعقوبؑ کی والدہ نے انہیں اپنے بھائی لابان کے پاس فدان آرام بھیج دیا تا کہ دونوں بھائی کچھ عرصے جدا رہیں اور آپس کے تعلقات مزید خراب نہ ہوں۔ عیسوادوم ناراض ہو کر اپنے چچا حضرت اسماعیلؑ کے پاس چلے گئے۔ جہاں حضرت اسماعیلؑ کی بیٹی سے ان کی شادی ہوئی۔ تاہم دونوں بھائیوں کے باہمی تعلقات بعد میں خوشگوار ہو گئے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کے ماموں نے آپ سے عہد لیا کہ اگر وہ دس سال ان کی بکریاں چرائیں تو ان کے ساتھ اپنی بیٹی کا عقد کر دیں گے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے یہ مدت پوری کر دی تو آپ کے ماموں لابان نے اپنی بیٹی ’’لیہ‘‘ سے آپ کی شادی کر دی۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے

حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے لیکن آپ کو حضرت یوسفؑ سے زیادہ محبت تھی۔ دوسرے بیٹے اس بات سے خوش نہیں تھے۔ سوتیلے بھائیوں نے حضرت یوسفؑ کو ایک دن جنگل میں اندھے کنوئیں میں پھینک دیا اور روتے دھوتے واپس آ کر حضرت یعقوب علیہ السلام سے کہا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا ہے۔ حضرت یعقوبؑ نے اس دکھ کوصبر و شکر سے برداشت کیا اور کہا!

’’نہیں بلکہ تم اپنے دل سے یہ بات بنا لائے ہو اب صبر ہی بہتر ہے اور خدا ہی سے مدد مانگتا ہوں اس بارے میں جو تم بیان کرتے ہو۔‘‘

(سورۃ یوسف۔ ۸)

آپ حضرت یوسفؑ کو یاد کر کے روتے رہتے تھے۔ روتے روتے آپ کی بینائی چلی گئی۔ دوسری طرف حضرت یوسفؑ کو ایک تجارتی قافلے نے کنویں میں سے نکالا اور اپنے ہمراہ مصر لے گئے۔ حالات نے آپ کو عزیز مصر کے محل میں پہنچا دیا۔ وہیں پل کر جوان ہوئے اور مصر کے فرماں روا بنے۔ حضرت یوسفؑ والی مصر مقرر ہوئے تو حضرت یعقوبؑ نے حضرت یوسفؑ کی خواہش کے مطابق اپنے اہل خاندان کے ہمراہ جن کی تعداد ستر تھی مصر کی طرف ہجرت کی۔ اس وقت آپ کی عمر ایک سو تیس برس تھی۔ 

آپ ہجرت کے بعد سترہ برس زندہ رہے۔ وفات سے قبل آپ نے اپنے بچوں کو بلا کر نصیحت کی۔

’’بھلا جس وقت یعقوبؑ وفات پانے لگے تو تم اس وقت موجود تھے جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیمؑ ، اسماعیلؑ اور اسحٰقؑ کے معبود کی عبادت کریں گے۔ 

جو معبود یکتا ہے اور ہم اسی کے حکم بردار ہیں۔‘‘

(سورۃ البقرہ۔ ۱۳۳)

حضرت یعقوب علیہ السلام کی عمر ایک سو سینتالیس برس ہوئی۔ حضرت یوسفؑ نے آپ کا جسد خاکی آپ کی وصیت کے مطابق کنعان لے جا کر حضرت سارہؑ ، حضرت رفقہ اور حضرت اسحٰقؑ کے پہلو میں دفن کیا۔


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔