Topics
نفس یا انا کی ایک صلاحیت جو بیداری اور خواب دونوں میں متحرک رہتی ہے۔ قوت حافظہ ہے۔ انسان زندگی کے ہر قدم پر اس قوت سے کام لیتا ہے لیکن اس پر غور نہیں کرتا کہ بچپن کے زمانے کا تصور کیا جائے تو ایک لمحہ میں ذہن بچپن کے واقعات کا احاطہ کر لیتا ہے۔ اگرچہ ہم سالوں کا وقفہ گزار چکے ہیں اور ہزار ہا تبدیلیوں سے گزر چکے ہیں لیکن ذہن جب ماضی کی طرف سفر کرتا ہے تو سالوں پر محیط عرصہ کو سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں طے کر کے بچپن کے زمانے میں پہنچ جاتا ہے۔ ہم ماضی کے واقعات کو نہ صرف محسوس کر لیتے ہیں بلکہ یہ واقعات اس طرح نظر آتے ہیں جیسے آدمی کوئی فلم دیکھ رہا ہے۔
کبھی کبھی احساسات اتنے گہرے ہو جاتے ہیں کہ شعور ان کا ادراک کر لیتا ہے۔ اگر کسی کام میں بہت زیادہ یکسوئی ہو جائے اور شعوری واردات ایک مرکز پر ٹھہر جائے تو یہ بات تجرباتی مشاہدہ بن جاتی ہے۔
انسان محض گوشت پوست کے جسم کا نام نہیں ہے۔ مادی جسم کے ساتھ ایک نورانی جسم ہے جس کا نام روح ہے۔ روح ہی جسم کی اصل ہے انسان کی روح جسم کے بغیر حرکت کرتی ہے لیکن مادی جسم روح کے بغیر حرکت نہیں کرتا۔ انسان اگر اپنی روح سے واقف ہو جائے تو وہ جسم کے بغیر بھی سفر کر سکتا ہے۔
جیسے ہی شعوری حواس پر سکوت طاری ہوتا ہے بیداری کے حواس پر خواب کے حواس کا غلاف چڑھ جاتا ہے اس حالت میں آدمی اپنے ارادے سے ان تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو استعمال کر سکتا ہے جو خواب میں کام کرتی ہیں۔ ماضی، مستقبل، دوری، نزدیکی بے معنی ہو جاتی ہے۔ آدمی خاکی جسم کی تمام قیود سے آزاد ہو کر سفر کرتا ہے۔
روحانی صلاحیت ترقی کر کے ایک ایسے مقام تک پہنچ جاتی ہے جہاں خواب اور بیداری کے حواس Parrallelہو جاتے ہیں اور انسانی شعور جس طرح بیداری کے معاملات سے واقف ہے اسی طرح خواب کی کیفیات و حرکات سے بھی مطلع رہتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔