Topics
فرعون نے اپنی مغرورانہ سرشت کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت کا مذاق اڑایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اپنا احسان جتلایا کہ اس نے ان کی پرورش کی ہے، مصری کو قتل کرنے کا طعنہ دیا اور آپ کے پیغام کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا:
’’اے موسیٰ! کیا میرے سوا بھی کوئی اور رب ہے؟‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:
’’میرا رب وہ ہے جو آسمانوں، زمین اور اس کے درمیان قائم مخلوقات کو پیدا کرنے والا ہے، تجھے اور تیرے آباؤ اجداد کو بھی اس نے پیدا کیا ہے۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارونؑ نہایت نرمی سے فرعون کو قائل کرتے رہے لیکن فرعون اپنی ضد پر اڑا رہا اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پاگل اور مجنوں کہا اور رعایا سے بولا:
’’میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، میں تم سب کا پروردگار ہوں۔‘‘
ایک دن بھرے دربار میں فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا:
’’اگر تو سچا ہے تو اپنی نبوت کا کوئی معجزہ دکھا۔‘‘
جادوگر
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی زمین پر پھینک دی وہ اژدھا بن گئی پھر آپ نے ستارے کی طرح چمکتا ہوا ید بیضا دکھایا یہ معجزات دیکھ کر درباری کہنے لگے۔
’’یہ تو بہت بڑا جادوگر ہے، پوری سلطنت سے جادوگروں کو جمع کر کے اس سے مقابلہ کرایا جائے پھر ضرور یہ شکست کھا جائے گا۔‘‘
فرعون نے اسی وقت احکام جاری کر دیئے، مقابلہ کے لئے دربار کو خاص طور پر سجایا گیا۔ ہزاروں قندیلیں روشن کی گئیں، مقابلہ کے وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جادوگروں سے کہا:
’’تم پہل کرو۔‘‘ جادوگروں نے اپنی رسیاں میدان میں ڈالیں تو وہ سانپ بن گئیں اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی۔
’’لا تخف ولاتحزن۔‘‘253
اے موسیٰ! خوف نہ کر اور غم نہ کر ہم تیرے ساتھ ہیں۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی زمین پر رکھ دی۔ اس لاٹھی نے اژدھا بن کر سارے سانپوں کو نگل لیا، جادوگر حقیقت حال جان کر ایمان لے آئے۔ فرعون نے غیض و غضب میں دھاڑتے ہوئے کہا:
’’تم سب نے موسیٰ سے مل کر سازش کی ہے تم لوگوں نے میری اجازت کے بغیر موسیٰ کے خدا کو تسلیم کر لیا ہے۔‘‘
فرعون نے ان جادوگروں کے ہاتھ، پیر کٹوا کر پھانسی کی سزا دے دی، فرعون کی سرکشی اورظلم پر اللہ کا عذاب نازل ہوا۔ اللہ نے ان پر جوئیں مسلط کر دیں، کھانے پینے کی چیزوں میں مکھیاں پیدا ہو گئیں، زمین میں جانوروں کو ہلاک کرنے والے کیڑے پیدا ہو گئے غلہ اور اناج میں گھن لگ گیا، پانی میں مینڈکوں کی افزائش نسل ہو گئی اتنے زیادہ مینڈک ہو گئے کہ انہوں نے پانی کو ڈھانپ لیا۔
ہجرت
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے ساتھ ہجرت کر جاؤ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ہارونؑ اور پوری قوم بنی اسرائیل کو لے کر نکلے، فرعون نے بھی ایک بڑی فوج کے ساتھ تعاقب کیا اور بنی اسرائیل تک پہنچ گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے آگے ٹھاٹیں مارتا ہوا بحر قلزم تھا اور پیچھے فرعون کا لشکر۔ وحی نازل ہوئی:
’’اپنی لاٹھی سمندر پر مارو، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے راہ بنا دے گا۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پانی پر لاٹھی ماری، پانی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور درمیان میں راستہ بن گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے ساتھ بحر قلزم کے کنارے پہنچ گئے، فرعون اور اس کا لشکر بھی پیچھے پیچھے اسی راستے پر چل پڑے۔ جب سمندر کے بیچ میں پہنچے تو سمندر کا پانی آپس میں مل گیا۔ فرعون اور اس کا لشکر غرق ہو گیا، غرق ہوتے وقت فرعون چیخنے لگا۔’’میں موسیٰ اور اس کے خدا پر ایمان لایا۔‘‘ لیکن اس کی دعا قبول نہیں ہوئی۔ اللہ نے اس کے جسم کو آئندہ نسلوں کے لئے عبرت کا نشان بنا دیا تا کہ لوگ دیکھیں کہ متکبروں سرکشوں اور خدا کے منکروں کا کیا حشر ہوتا ہے۔(* حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور کے فرعون کی ممی آج بھی مصر کے عجائب خانہ میں عبرت کا نشان بنی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ سمندر سے بھی فرعون کی ایک لاش نکلی ہے جو صحیح سالم حالت میں ہے۔)
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے ساتھ وادی سینا پہنچے وہاں کے لوگ بت پرست تھے، خوبصورت اور عالیشان مندروں کو دیکھ کر بنی اسرائیل کا سویا ہوا بت پرستی کا جذبہ جاگ اٹھا کہنے لگے:
’’موسیٰ! ہم کو بھی ایسے معبود بنادے تا کہ ہم بھی اسی طرح ان کی پرستش کریں۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا:
’’کیا تم نے خدا کی ان نعمتوں کو فراموش کر دیا ہے جن کا مشاہدہ تم اپنی آنکھوں سے کر چکے ہو؟‘‘
وادی سینا میں شدید گرمی تھی، بنی اسرائیل گھبرا گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پانی کے لئے اللہ سے دعا کی وحی نازل ہوئی:
’اپنا عصا زمین پر مارو۔‘‘
بارہ چشمے
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے زمین پر اپنا عصا مارا بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے لئے الگ الگ بارہ چشمے جاری ہو گئے، قوم نے کھانے کا مطالبہ کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے نہایت شیریں حلوہ ’’من‘‘ اتارا دن کے وقت تیز ہوا کے ساتھ بٹیروں کے غول کے غول زمین پر اترے۔ بنی اسرائیل نے انہیں پکڑ کر بھونا اور کھایا یہ ’’سلویٰ‘‘ تھا۔ اسی طرح روزانہ ’’من و سلویٰ‘‘ نازل ہوتا رہا۔
اب قوم نے تیسرا مطالبہ کیا کہ سایہ دار درختوں اور مکانات نہ ہونے کی وجہ سے ہم شدید گرمی سے پریشان ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تو بادل سائبان بن کر بنی اسرائیل کے سروں پر آ گئے ہر وقت سایہ رہنے لگا۔
ناشکری قوم نے نیا مطالبہ یہ کیا:
’’ہم روز ایک ہی غذا کھاتے کھاتے تنگ آ گئے ہیں۔ اے موسیٰ! دعا کرو کہ وہ ہمارے لئے زمین سے باقلا، کھیرا، مسور، لہسن اور پیاز جیسی چیزیں اگائے تا کہ ہم خوب کھائیں۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے اس مطالبے سے رنجیدہ ہو کر فرمایا:
’’تم بھی کس قدر ناشکرے اور نادان ہو کہ ایک عمدہ غذا کو چھوڑ کر معمولی چیزیں مانگ رہے ہو۔ خدا کی نعمتوں کو ٹھکرا کر اس کی ناشکری نہ کرو اور اگر تمہیں انہی چیزوں کے لئے اصرار ہے تو جاؤ کسی بستی اور شہر میں چلے جاؤ وہاں یہ چیزیں تمہیں وافر مقدار میں مل جائیں گی۔‘‘
بنی اسرائیل مصریوں کی غلامی سے آزاد ہو چکے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ جب بنی اسرائیل مصری حکومت کی غلامی سے آزاد ہو جائیں گے تو تمہیں شریعت دی جائے گی، وعدہ پورا ہونے کا وقت آ گیا تھا، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قوم سے کہا:
’’میرے پیچھے گمراہی میں نہ پڑ جانا، میرے اعتکاف کی مدت ایک ماہ ہے، ہارون تمہارے پاس موجود ہیں، یہ تمہاری نگرانی کرتے رہیں گے۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر پہنچے اور وہاں عبادت الٰہی کے لئے اعتکاف کیا، اعتکاف کی مدت ایک ماہ تھی لیکن بعد میں دس دن بڑھا کر چلہ پورا کیا، چالیس دن کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو ہم کلامی کا شرف بخشا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے استدعا کی کہ مجھے اپنا دیدار بھی کرا دیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’تم مشاہدہ کی تاب نہ لا سکو گے، اچھا دیکھو ہم اپنی ذات کی تجلی کا ظہور اس پہاڑ پر کریں گے اگر پہاڑ نے تجلی کو برداشت کر لیا تو تم سوال کرنا۔‘‘
تجلی کا ظہور ہوا تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات عطا کی اور فرمایا:
’’اے موسیٰ! بیشک میں نے لوگوں پر تجھ کو اپنی پیغمبری اور ہم کلامی سے برتری دی ہے اور چن لیا ہے پس جو میں نے تجھ کو دیا ہے اس کو لے اور شکر گزار بن اور ہم نے اس لئے تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہر شئے کی تفصیل لکھ دی ہے، پس اس کو قوت کے ساتھ پکڑ اور اپنی قوم کو حکم کر کہ وہ اس میں سے اچھے احکام پر عمل کریں، عنقریب میں تم کو نافرمانوں کا گھر دکھاؤں گا۔‘‘
(سورۃ اعراف: ۱۴۴۔۱۴۵)
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔