Topics
قوم ’’عاد‘‘ کے افراد قد کاٹھ کے لحاظ سے بڑے لحیم شحیم تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں زبردست جسمانی قوت سے نوازا تھا۔ سرسبز و شاداب علاقہ کی وجہ سے مال و دولت کی کثرت تھی، آسودہ حال لوگ تھے فن تعمیر میں ان کو خاص ملکہ تھا، بڑی بڑی عالیشان عمارتیں اور یادگاریں تعمیر کرتے تھے، پرتکلف اور شاندار تعمیرات بنانے میں عاد کے لوگ اپنی مثال آپ تھے، ستر شاخوں (نسلوں) پر مشتمل یہ قوم موجودہ دنیا کی قدیم ترین تہذیب کی بانی تھی، جنوب مشرقی عرب کے دور میں دور دراز علاقوں پر حکمران تھے۔ یہ قوم جب مصر پر قابض ہوئی اس وقت ان کا بادشاہ شداد بن عاد تھا۔
عرب مورخین انہیں امم بائدہ یعنی برباد ہو جانے والے قبائل کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے اونچی عمارتوں والے عادِ ارم سے کیا سلوک ہے۔‘‘
(الفجر۔۶۔۷)
مغرور اور سرکش
قوم نوح ؑ کی غرقابی کے بعد اگرچہ یہ لوگ زمین پر حکمران بنا دیئے گئے تھے لیکن انہوں نے گزشتہ اقوام کی تباہی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور گمراہی کا راستہ اختیار کیا۔ یہ لوگ بت پرست تھے، ستارہ پرستی ان کے عقائد میں شامل تھی، نعمتوں کی فراوانی نے انہیں مغرور کر دیا تھا، کفر و شرک نے ان کے قلوب سیاہ کر دیئے تھے اور سوچ و بچار کی قوتیں سلب ہو چکی تھیں۔ شیطان نے انہیں اللہ سے اس درجہ غافل کر دیا تھا کہ روزی دینے، اولاد دینے، تندرستی عطا کرنے، مینہ برسانے اور دوسری بہت سی حاجتوں کے لئے انہوں نے الگ الگ بت تراش لئے تھے۔ قوم نوح جن بتوں کو پوجتی تھی یہ قوم بھی انہی کی پرستش میں لگ گئی، عوام و خواص ایسی برائیوں میں مبتلا تھے کہ کمزور اور بے بس مخلوق پر عرصۂ حیات تنگ ہو گیا تھا۔
ایسے وقت میں جب کہ گمراہی اور جہالت کے مہیب اندھیرے ہر طرف پھیل گئے تھے اللہ کی رحمت سے قوم عاد کے لئے حضرت ہودؑ مبعوث ہوئے۔
’’اور عاد کی طرف بھیجا ان کا بھائی ہود، بولا اے قوم! بندگی کرو اللہ کی، کوئی نہیں تمہارا صاحب اس کے سوا کیا تم کو ڈر نہیں۔‘‘
سورۃ الاعراف۔۶۵)
حضرت ہودؑ میں بچپن سے پیغمبرانہ صفات جلوہ گر تھیں۔ آپ بتوں سے بیزار تھے، ظلم و ستم کی مخالفت کرتے تھے، مظلوموں اور بے کسوں کی حمایت میں آگے آگے رہتے تھے، عجز و انکساری، حلم و بردباری آپ کے اوصاف تھے۔ گناہ آلود ماحول سے تنگ آ کر آبادی سے باہر چلے جاتے تھے اور تنہائی میں بیٹھ کر کائنات میں پھیلی ہوئی نشانیوں میں تفکر کرتے تھے۔
یکسوئی(Concentration)سے جب شعور اس قدر مجلہ ہو گیا کہ غیب کی دنیا میں وقوف پذیر ہونے والے واقعات آشکار ہونے لگے تو حضرت جبرائیل آئے اور نبوت سے سرفرازی کی خوشخبری سنائی گئی۔
’’اور یاد کرو کہ عاد کے بھائی کو، جب ڈرایا اپنی قوم کو احقاف میں۔‘‘
احقاف۔۲۱)
اللہ کی پکڑ
آپ نے اعلان کیا:
’’اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے، اس نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا ہے کہ تمہیں ہدایت کی راہ بتاؤں، خدائے واحد سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔ پتھر کے بت مٹی سے بنے ہوئے مجسمے اور تمہارے اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے صنم تمہارے حاکم کیسے ہو سکتے ہیں؟ سیاہ رات کو روشن کرنے والا، چاند اور لاتعداد ستارے اللہ کے بنائے ہوئے راستوں پر گردش کرنے کے پابند ہیں، یہ اللہ کے حکم سے سرموانحراف نہیں کرتے، یہ تمہارے اعمال پر کس طرح مختار ہو سکتے ہیں؟ تم گمراہی میں پڑ گئے ہو، شیطان نے تمہیں بہکا دیا ہے، اس شرک کی تمہارے پاس کوئی عقلی دلیل نہیں ہے، اللہ نے تمہیں جسمانی قوتوں اور ذہنی صلاحیتوں سے نوازا ہے، ان کی قدر کرو اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو اگر تم نے بڑائی اور نمود و نمائش کو ترک نہیں کیا اور اللہ کا شکر نہیں کیا تو یاد رکھو اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے۔‘‘
گمراہ قوم نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ:
’’تم ہمارے پاس صرف اس لئے آئے ہو کہ ہم صرف ایک ہی اللہ کی عبادت کریں اور انہیں چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے تھے۔‘‘
حضرت ہودؑ نے کہا:
’’کیوں جھگڑتے ہو مجھ سے، کئی ناموں پر کہ رکھ لئے ہیں تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے، نہیں اتاری اللہ نے ان کی کچھ سند۔‘‘
(الاعراف۔ ۷۱)
قوم کے سرداروں نے آپ کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ:
’’ہم گمان کرتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو، تم ہمیں بہکا کر ہمارے معبودوں سے برگشتہ نہیں کر سکتے، عذاب کی دھمکیوں سے مرعوب ہو کر ہم اپنے بزرگوں کا راستہ ترک نہیں کریں گے، تم اگر اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو ہم پر اپنے رب کا عذاب لے آؤ۔‘‘
حضرت ہودؑ نے قوم کو سمجھایا کہ:
’’میں اللہ کا رسول ہوں تم لوگوں تک اللہ کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور میں تمہارا خیر خواہ ہوں تم مجھ پر بھروسہ کر سکتے ہو، کیا تم اس بات پر تعجب کرتے ہو کہ اللہ نے خبردار کرنے کے لئے تم ہی میں سے ایک مرد مقرر کر دیا ہے، اگر تم سمجھتے ہو کہ اس وعظ اور نصیحت سے میں کسی صلہ و ستائش کا خواہش مند ہوں تو یہ تمہاری کوتاہ فہمی ہے میں تم سے کسی چیز کی تمنا نہیں رکھتا، میرا صلہ اسی کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔‘‘
قوم نے آپ کی تعلیمات سے بیزاری کا اظہار کیا:
’’بولے ہم کو برابر ہے تو نصیحت کرے یا نصیحت نہ کرے اور ہمیں یہ عادت ہے کہ اگلے لوگوں کی اور ہم کو آفت نہیں آنے والی۔‘‘
(سورۃ الشعراء۔۱۳۶۔۱۳۸)
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔