Topics

قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھا

’’اور اپنے اس قول پر کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم پیغمبر خدا کو قتل کر دیا حالانکہ انہوں نے نہ اس کو قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھایا بلکہ اصل معاملہ پر مشتبہ ہو کر رہ گیا۔ اور جو لوگ اس کے قتل کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں بلاشبہ وہ اس کی جانب شک میں پڑے ہوئے ہیں، ان کے پاس حقیقت حال کے بارے میں گمان کی پیروی کے سوا علم کی روشنی نہیں ہے اور انہوں نے عیسیٰ کو یقیناً قتل نہیں کیا بلکہ ان کو اللہ نے اپنی جانب اٹھا لیا اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔‘‘

(سورۃ النساء۔ ۱۵۷،۱۵۸)

نبی اور رسول کی بعثت کا مقصد رشد و ہدایت، خیر اور فلاح ہے۔ نبی اور رسول یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ اصلاح احوال میں ان کا عمل دخل ہے۔ وہ برملا اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ من جانب اللہ ہے۔ انبیاء کرامؑ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سپرد کردہ فرائض کو دلیل و برہان کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں، ہر نبی اور رسول اس فرض کو پورا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے جس کے لئے اسے منتخب اور مامور کیا ہے۔

معجزہ اس لئے صادر ہوتا ہے کہ لوگوں کے لئے اللہ کی ’’حکمت‘‘ سند بن جائے، ہر معجزہ کے پس پردہ نوع انسانی کے لئے اللہ کی ربوبیت، حاکمیت اور قدرت کاملہ کا ظہور ہوتا ہے۔

’’اے پیغمبر! جو تم پر نازل کیا گیا ہے تم اس کو پورا پورا پہنچا دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو منصب رسالت کو ادا نہ کیا۔‘‘

(سورۃ مائدہ۔ ۶۷)

اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں اور رسولوں کی تائید و تقویت کے لئے معجزات عطا کئے ہیں۔

پیغمبروں نے بالوضاحت یہ بھی فرمایا ہے کہ ہم اللہ کی جانب سے فقط نذیر مبین بشیر و نذیر اور ’’رسول و نبی‘‘ ہیں کسی پیغمبر نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ کائنات میں تفکرات وتغیرات پر مامور ہیں ہر پیغمبر ہی نے کہا ہے کہ اللہ کے عطا کردہ اختیارات سے وہ ایسا کر سکتے ہیں مگر اس وقت جب اللہ چاہے۔

معجزہ

حضرت داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کو جانوروں کی بولیوں کا علم، ہوا کی تسخیر، جنات پر تصرف کے معجزے دیئے گئے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نوکھلے نشان عطا کئے گئے ہیں۔ جن سے دو نشان عصا اور یدبیضا بڑے نشان ہیں اور بحر قلزم میں فرعون کا غرق ہونا اور بنی اسرائیل کا نجات پانا ایک عظیم نشان ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آسمان سے باتیں کرتے ہوئے آگ کے شعلوں کو سلامتی کی ٹھنڈ بنایا۔ قوم صالح کے لئے ’’اونٹنی‘‘ کو نشان بنایا۔ حضرت ہودؑ اور حضرت نوحؑ سے ان کی قوموں نے عذاب طلب کیا اور بہت سمجھانے پر بھی جب ان کا اصرار قائم رہا تو پیغمبروں نے عذاب الٰہی کی پیشن گوئی کی جو پوری ہوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مختلف نشان دیئے گئے، ان معجزوں کی تفصیل قرآن حکیم میں بیان ہوئی ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عملی معجزہ قرآن عطا کیا جس کی مثال قیامت تک کوئی پیش نہیں کر سکے گا، غزوہ بدر کے موقع پر فرشتوں کا نزول اور ان کے ذریعے مسلمانوں کی مدد اور فتح اور ’’ومارمیت اذرمیت و لکن اللہ رمی‘‘ کے اعلان سے اس معجزے کا اعلان فرمایا۔ جس نے بدر کے میدان میں مٹھی بھر خاک کو ایک ہزار دشمنوں کی آنکھوں کا آزار بنا دیا اور حضرت محمدﷺ کو ’’شق القمر‘‘ کا معجزہ عطا فرمایا۔

سونے کا مکان

’’اور انہوں نے کہا۔ ہم اس وقت ہرگز تیری بات نہیں مانیں گے کہ تو ہمارے لئے زمین سے چشمہ ابال دے یا تیرے واسطے کھجوروں کا اور انگوروں کا باغ ہو اور تو اس کے درمیان زمین پھاڑ کر نہریں بہا دے یا تو جیسا گمان کرتا ہے ہمارے اوپر آسمان گرا دے۔ یا تو اللہ اور اس کے فرشتوں کو (ہمارے) مقابل لائے۔ یا تیرے واسطے ایک سونے کا مکان ہو اور یا تو چڑھ جائے آسمان پر اور ہم تیرے چڑھ جانے کو بھی ہرگز اس وقت تک نہیں تسلیم کریں گے تاوقتیکہ تو ہمارے پاس کتاب لے کر نہ آئے کہ اس کو ہم پڑھیں(اے محمدﷺ) کہہ دیجئے پاکی ہے میرے پروردگار کیلئے میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ انسان ہوں، خدا کا پیغامبر ہوں۔‘‘

(سورۃ بنی اسرائیل۔ ۹۰،۹۳)

’’اور اگر کھول دیں ہم ان پر آسمان کا ایک دروازہ اور یہ اس پرچڑھنے لگیں تب بھی ضرور یہی کہیں گے کہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہماری نظر بندی کر دی گئی ہے۔ بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے۔‘‘

(سورۃ الحجر۔ ۱۴،۱۵)

’’اور اگر یہ ہر قسم کے نشان بھی دیکھ لیں تب بھی (ضد اور تعصب کی بناء پر) ایمان لانے والے نہیں ہیں۔‘‘

(سورۃ الانعام۔ ۲۵)

پیغمبر کو اس کے زمانے کے مطابق ایسے معجزات و نشانات عطا کئے گئے ہیں جو اس دور کے مناسب حال ہوں۔ مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں علم نجوم (Astronomy) اور علم کیمیا(Chemistry) کا بہت زور تھا۔ ان کی قوم کواکب و نجوم کے اثرات کو ذاتی اثرات سمجھتے اور ان کی پرستش کرتے تھے ان کا سب سے بڑا دیوتا ’’شمس سورج‘‘ تھا کیونکہ وہ روشنی اور حرارت دونوں کا حامل تھا۔ ان کی نگاہ میں یہی دونوں چیزیں کائنات کی بقاء و فلاح کے لئے اصل اصول تھیں، لوگ آگ کو سورج کا مظہر مان کر اس کی پرستش کرتے تھے، بادشاہ اور قوم کے عام افراد نے بت پرستی کے خلاف حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دلائل و برہان سے لاجواب ہو کر انہیں دہکتی ہوئی آگ میں پھینک دیا تو اللہ تعالیٰ نے آگ کو گل و گلزار بنا دیا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں علوم و فنون اور سحر Magicقوم میں رائج تھا۔ فن سحر میں کمال درجہ انہیں حاصل تھا۔ اسی لئے زمانہ کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات کے ساتھ ’’یدبیضا‘‘ اور ’’عصا‘‘ جیسے معجزات دیئے گئے تھے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سحر کے سامنے جب اللہ کے علم کا مظاہرہ کیا تو جادوگر پکار اٹھے بلاشبہ یہ سحر نہیں ہے یہ تو انسانی طاقت سے بالاتر علمی مظاہرہ ہے۔


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔