Topics
یقین اسے کہتے ہیں جو کسی بھی طرح متزلزل نہ ہو۔ یقین دین کی اساس ہے۔ مشاہدات اور مراتب کے لحاظ سے اس کے تین درجے ہیں۔
علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین۔
اگر کسی شئے کے علم کے بارے میں دلیل و برہان کے ذریعے اس حد تک یقین ہو جائے کہ تردد نہ رہے تو اسے علم الیقین کہتے ہیں۔
اگر یہ علم دلیل و برہان سے گزر کر مشاہدہ بن جائے تو اسے عین الیقین کہتے ہیں۔ اگر علم کی حقیقت سامنے آ جائے اور بلا کم و کاست حقیقت شئے یا شئے کی تہہ کا علم ہو جائے تو اسے حق الیقین کہتے ہیں۔
مثلاً میں نے کہا انگور، اور انگور کی تعریف بھی بیان کر دی تو آپ نے یقین کر لیا تو یہ علم، علم الیقین ہے۔
آپ نے پہاڑ پر یا باغ میں جا کر انگور کی بیل پر انگور کے خوشے دیکھ لئے اس کا الگ ذائقہ بھی چکھ لیا، خوشبو سونگھ لی یہ عین الیقین ہے۔ آپ نے یہ علم حاصل کر لیا کہ انگور کی بیل میں انگور کیوں لگتے ہیں؟ زمین میں سے انگور میں مخصوص مٹھاس، کھٹاس، ذائقہ میں قدرت کے کون سے فارمولے کام کر رہے ہیں تو یہ حق الیقین ہے۔
دوسری مثال:
میں نے کہا، آپ نے سنا ’’آدمی‘‘۔ میری بات کا آپ نے یقین کر لیا یہ علم الیقین ہے۔ آدمی کی خصوصیات کا علم ہو گیا اور آدمی کی تعریف معہ اس کی صلاحیتوں کے آپ کے سامنے بیان کر دی گئی اور آپ کے شعور نے اسے قبول کر لیا تو یہ علم عین الیقین ہے۔ اگر آدمی کے تخلیق راز و نیاز، حیات و ممات کی قدریں اور اللہ کے وہ رموز جو اللہ نے انسان کی روح میں مخفی کر دیئے ہیں اور جن سے آدم کو واقف کر دیا گیا ہے اس کا علم حاصل ہو جائے تو اسے حق الیقین کہتے ہیں۔
آئینہ کی مثال
ایک شخص آئینہ دیکھتا ہے۔ آئینہ میں اس کا عکس نظر آتا ہے مگر وہ صرف اتنا جانتا ہے کہ میرے سامنے مجھ جیسا ایک انسان ہے تو یہ حالت علم الیقین ہے۔ اگر دیکھنے والے کو یہ یقین ہے کہ اپنا ہی عکس دیکھ رہا ہوں لیکن وہ اپنی آئینہ کی حقیقت سے ناواقف ہے تو یہ حالت عین الیقین ہے۔ اگر دیکھنے والا اپنی، آئینہ کی اور عکس کی حقیقت جانتا ہے تو یہ حالت حق الیقین ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حقائق کی اشیاء کی جستجو اور تحقیق کا طبعی ذوق تھا اور وہ ہر چیز کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتے تھے، تحقیق اور ریسرچ ان کی زندگی کا خاص مقصد تھا، وہ تحقیق کے ذریعے اللہ وحدہ لا شریک لہٗ کی قدرت کاملہ کا مشاہدہ کرنا چاہتے تھے۔ اسی ذوق، ریسرچ اور تحقیق کے جذبے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے موت کے بعد زندگی یعنی مر جانے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کے متعلق اللہ کے حضور سوال کیا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اے ابراہیم! کیا تم اس مسئلے پر یقین نہیں رکھتے؟‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فوراً عرض کیا:
’’میں بلا توقف اس پر ایمان رکھتا ہوں۔ میں یہ جانتا ہوں کہ آپ قادر مطلق ہیں، آپ سب کچھ کر سکتے ہیں، میرا سوال اس لئے ہے کہ میں علم الیقین کے ساتھ عین الیقین اور حق الیقین کا خواستگار ہوں۔ میری تمنا ہے کہ ’’اے میرے رب! تو مجھے آنکھوں سے مشاہدہ کرا دے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’چند پرندے لے لو اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے سامنے والے پہاڑ پر ڈال دو اور پھر فاصلے پر کھڑے ہو کر انہیں پکارو۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو آواز دی تو ان سب کے اجزاء علیحدہ علیحدہ ہو کر اپنی اپنی شکل میں آ گئے۔
چار پرندے
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا:
’’اے میرے پروردگار! مجھے دکھا تو کس طرح مردوں کو زندہ کرے گا؟‘‘
کہا: ’’کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟‘‘۔ کہا:’’کیوں نہیں لیکن دلی اطمینان چاہتا ہوں۔‘‘
کہا: ’’پس چار پرندے لے پھر ان کو اپنے ساتھ مانوس کر پھر رکھ دے ہر ہر پہاڑوں پر ان کے جز ڈال کر۔ پھر ان کو بلا، وہ آئیں گے تیرے پاس دوڑتے ہوئے اور تو یہ جان لے۔ بے شک اللہ غالب ہے، حکمت والا ہے۔‘‘
(سورۃ بقرہ۔ ۲۶۰)
اللہ تعالیٰ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ عرض کرنا کہ ایمان تو ہے لیکن دلی اطمینان کے لئے یہ سوال کرتا ہوں، کا مفہوم یہ ہے کہ دل کے اطمینان کیلئے یقین(مشاہدہ) ضروری ہے۔
’’اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے، کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے، کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔‘‘
(سورۃ الحجرات۔ ۱۴)
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔