Topics
قرآن اور دیگر آسمانی صحائف میں اللہ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعہ میں صرف کہانی بیان نہیں کی کہ کہانیاں سنا کر ہمیں مرعوب کرے۔ اللہ ہمیں کیوں مرعوب کرے گا۔ ہماری حیثیت اور حقیقت ہی کیا ہے، اللہ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اللہ کی منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں۔ اس قصہ کا منشاء یہ ہے کہ ہم بھی ہدایت کی راہ اختیار کریں، اللہ نے اس ضمن میں جنات کا تذکرہ بھی کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ جنات انسانوں کے زیر اثر آ سکتے ہیں۔ اگر اس علم کو آسمانی کتاب میں تلاش کریں جس کو علم الکتاب کہا گیا ہے تو یقیناً وہ علم انہیں مل جائے گا جو انسان کو نہ صرف جنات پر بلکہ پوری کائنات پر فوقیت دیتا ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ سبا کے واقعہ میں ایک پرندے ہد ہد کی دانشمندی کا تذکرہ ہے۔ ہد ہد کا دیر سے آنا اور ملکہ سبا سے متعلق اطلاع دینا اور یہ بتانا کہ وہ اور اس کی قوم آفتاب پرست ہے اور ہد ہد کا پیغام لے کر جانا۔ یہ سب باتیں نکات سے خالی نہیں۔
ان باتوں میں اللہ کی حکمت پوشیدہ ہے۔
ہد ہد ایک مشہور پرندہ ہے جس کے جسم پر مختلف رنگ کی دھاریاں ہوتی ہیں اس کے سر پر تاج ہوتا ہے اور ہد ہد زمین کے نیچے پانی کو اس طرح دیکھ لیتا ہے جس طرح انسان گلاس کے اندر پانی کو دیکھ لیتا ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں ہد ہد کھو جی تھا اس کی ڈیوٹی پانی تلاش کرنا تھا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کا لنگر
لشکر میں لنگر تقسیم کرنے کیلئے حضرت سلیمان علیہ السلام روزانہ پانچ ہزار اونٹنیاں پانچ ہزار بیل اور بیس ہزار بکریاں ذبح کرواتے تھے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے حج کے ارکان مکمل کرنے کے بعد اپنی قوم کے سرداروں سے فرمایا:
’’یہی وہ جگہ ہے جہاں نبی ﷺ پیدا ہونگے ان کا رعب و دبدبہ دور دراز کے علاقوں تک پھیل جائے گا، رشتے داروں اور اجنبی لوگوں کو برابر برابر کے حقوق دیں گے، انہیں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کچھ نقصان نہ دے گی۔‘‘
لوگوں نے سوال کیا اللہ کے نبی کس دین پر ہونگے؟
حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا:
’’دین حنیف پر۔ وہ بڑا خوش نصیب ہو گا جو ان کے زمانے کو پائے گا اور ان پر ایمان لائے گا، لہٰذا جو یہاں موجود ہیں وہ غیر حاضر لوگوں تک میری یہ بات پہنچا دیں وہ انبیاء کے سردار خاتم النبیین ﷺ ہونگے۔‘‘
جب علاقہ کی سیر کیلئے ہد ہد نے ہوا میں پرواز کی اور اتنی اونچی اڑان اڑا کہ لگتا تھا کہ ہد ہد اور آسمان قریب ہو گئے ہیں۔ ہد ہد نے دیکھا کہ ایک نہایت خوبصورت اور ہرا بھرا باغ ہے، باغ کی کشش نے ہد ہد کو اپنی طرف کھینچ لیا اور باغ میں ایک ہرے بھرے درخت کی شاخ پر جا بیٹھا، وہاں ایک یمنی ہد ہد پہلے سے موجود تھا، دونوں میں بات چیت ہوئی۔ یمنی ہد ہد نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہد ہد یغفور کو بتایا:
’’میں اسی ملک کا باشندہ ہوں۔ یہ باغ ملکہ بلقیس کا ہے، ملکہ بلقیس کی حکومت میں بہت سے امراء ہیں اور ملکہ کی فوج میں بارہ ہزار سپہ سالار ہیں۔
میرے ہم جنس دوست آپ کہاں سے آئے ہیں؟ چلو میرے ساتھ میں تمہیں ملکہ بلقیس کا محل دکھاؤں تا کہ تمہیں اس کی شان و شوکت کا اندازہ ہو جائے۔‘‘
یغفور نے کہا:
’’میرے دوست میں حضرت سلیمان علیہ السلام نبی کے دربار میں ملازم ہوں۔ میری ڈیوٹی یہ ہے کہ میں پانی فراہم کروں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو پانی کی ضرورت پڑی تو مجھے تلاش کرینگے اور وہ مجھے نہیں پائیں گے تو ناراض ہونگے۔‘‘
یمنی ہد ہد نے کہا:
’’اگر تم ملکہ بلقیس کی خبر اپنے آقا کو دو گے تو وہ خوش ہو جائیں گے۔‘‘
ہد ہد یغفور ملکہ بلقیس کی سلطنت اور وہاں کے حالات کا پتہ لگانے یمنی ہد ہد کے ساتھ چلا گیا اور وہاں سے رخصت ہو کر عصر کے وقت اپنی ڈیوٹی پر واپس آ گیا۔
جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے پانی کے لئے ہد ہد کو نہ پایا تو فرمایا!
’’میں ہد ہد کو موجود نہیں پاتا کیا وہ واقعی غیر حاضر ہے؟ اگر اس کی غیر حاضری بے وجہ ہے تو میں اس کو سخت سزا دوں گا یا ذبح کر ڈالوں گا یا پھر وہ اپنی غیر حاضری کی کوئی معقول وجہ بتائے۔‘‘
عقاب
حضرت سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کے نگراں عقاب کو حکم دیا کہ کہیں سے بھی لا کر ہد ہد کو میرے سامنے پیش کر۔ عقاب نے اتنی بلندی پر پرواز کی کہ اسے دنیا ایسی نظر آنے لگی جیسے آدمی کے ہاتھ میں پیالہ نظر آتا ہے۔ عقاب کو ہد ہد یمن کی طرف سے آتا ہوا دکھائی دیا۔ عقاب نے جھپٹ کر اسے پکڑنا چاہا، ہد ہد نے احتجاج کیا اور عرض کیا کہ:
’’اللہ کے واسطے مجھ پر رحم کرو اور میرے ساتھ برائی کا ارادہ نہ رکھو۔‘‘
عقاب نے کہا:
’’کیا تجھے معلوم ہے کہ اللہ کے نبی نے قسم کھائی ہے کہ تجھے سخت سے سخت سزا دیں گے یا تجھے ذبح کر ڈالیں گے۔‘‘
ہد ہد نے یہ سن کر کہا:
’’کیا اس کے علاوہ بھی کچھ فرمایا ہے اللہ کے نبی نے؟‘‘
عقاب نے کہا:
’’ہاں یہ فرمایا ہے کہ اگر اپنی غیر حاضری کی کوئی کھلی دلیل پیش کر دے تو معاف کر دینگے۔‘‘
ہد ہد نے کہا:
’’تب تو میری جان بخشی ممکن ہے۔‘‘
* حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوں کو ان کے مناسب حال پر سزا دیا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سزا یہ تھی کہ پرندے کو دھوپ میں ڈال دیتے تھے یا چیونٹیوں کو کھانے کے لئے دے دیتے تھے، بعض کو پنجروں میں قید کر دیتے تھے۔ قصور وار پرندے کو اس کے قبیلے سے جدا کر دیتے تھے اور دوسرے پرندے اس کا بائیکاٹ کر دیتے تھے، سزا کی مدت پوری ہونے کے بعد اسے آزاد کر دیا جاتا تھا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔