Topics

سامری کی فتنہ انگیزی

 

جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو گئے ہوئے تیس دن سے زیادہ ہو گئے تو بنی اسرائیل پریشان ہونے لگے۔ ایک شخص سامری نے ان سے کہا کہ اپنے تمام سونے کے زیورات میرے پاس لے آؤ تا کہ میں تمہارے فائدہ کی ایک بات کروں۔ سامری نے تمام زیورات کو بھٹی میں پگھلا کر ایک بچھڑا تیار کیا اس کے اندر ایک مٹھی خاک ڈال دی ۔ اس طرح بچھڑا بھائیں بھائیں بولنے لگا۔ سامری نے بنی اسرائیل سے کہا:

’’موسیٰ سے غلطی اور بھول ہو گئی کہ وہ خدا کی تلاش میں کوہ طور پر گیا ہے تمہارا معبود تو یہ ہے۔‘‘

بنی اسرائیل پھر گمراہ ہو گئے اور بت پرستی شروع کر دی۔ انہوں نے حضرت ہارونؑ کی کوئی بات نہ سنی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہ طور سے تورات لے کر واپس آئے تو قوم کو بت پرستی میں مشغول دیکھ کر سخت ناراض ہوئے، قوم سے کہا:

’’ہم بے قصور ہیں، سامری نے زیورات لے کر یہ سوانگ بنا دیا اور ہم کو گمراہ کر دیا۔‘‘

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بچھڑے کو دوبارہ آگ میں ڈال کر پگھلا دیا اور سامری سے کہا:

’’تیرے لئے یہ سزا تجویز کی گئی ہے کہ تو پاگلوں کی طرح مارا مارا پھرے اور جب کوئی انسان تیرے قریب آئے تو اسے بھاگتے ہوئے یہ کہے کہ دیکھنا مجھ کو ہاتھ نہ لگانا، یہ دنیاوی عذاب ہے اور قیامت میں ایسے نافرمانوں اور گمراہوں کے لئے جو عذاب مقرر ہے وہ تیرے لئے وعدہ الٰہی کی صورت میں پورا ہو گا۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’جن لوگوں نے شرک کیا ان کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔‘‘

باپ، بیٹے اور بھائی بھائی کا قتل

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے کہا:

’’توبہ کی صرف ایک صورت ہے مجرموں میں جو شخص رشتے میں جس سے زیادہ قریب ہے وہ اپنے ہاتھ سے اپنے عزیز کو ختم کر دے یعنی باپ بیٹے کو، بیٹا باپ کو اور بھائی بھائی کو۔‘‘

بنی اسرائیل کو اس فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ اس طرح تین ہزار بنی اسرائیل ہلاک ہو گئے۔ حضرت موسیٰ نے بارہ گاہ الٰہی میں قوم کی بخشش کے لئے دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے قاتلوں اور مقتول دونوں کو معاف کر دیا اور فرمایا:

’’ان کو سمجھا دو کہ آئندہ شرک نہ کریں۔‘‘

توبہ قبول ہونے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قوم کے سامنے تورات پیش کی قوم نے تورات کو اللہ کی کتاب ماننے سے انکار کر دیا، کہنے لگے۔

’’جب تک خدا ہم سے خود نہ کہے ہم کیسے یقین کر لیں۔‘‘

بالآخر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قوم میں سے ستر(۷۰) سردار منتخب کئے اور انہیں لے کر کوہ طور پر پہنچے آپ نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا:

’’اے اللہ! اگر تو مجھے ہم کلامی کا شرف بخشے اور یہ سردار سن لیں تو قوم ایمان لے آئے گی۔‘‘

اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہمکلام ہوئے۔ جب نور رحمت آنکھوں سے اوجھل ہو گیا تو سردار کہنے لگے ہم اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو دیکھنا چاہتے ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں بہت سمجھایا لیکن وہ اپنی بات پر بضد رہے اس پر اللہ تعالیٰ کا قہر ایک بہت ہیبت ناک زلزلے کی صورت میں نازل ہوا اور تمام سردار جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر اللہ تعالیٰ سے ان کی طرف سے معافی طلب کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو پھر زندہ کر دیا۔ سرداروں نے واپس آ کر موسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کی لیکن بنی اسرائیل نے پھر بھی تورات کو قبول کرنے میں پس و پیش شروع کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے ایک اور معجزہ دکھایا پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ کر سائبان کی طرح بنی اسرائیل کے سروں پر چھا گیا اور اعلان ہوا:

’’موسیٰ خدا کا سچا پیغمبر ہے اور تورات بلاشبہ خدا کی سچی کتاب ہے۔‘‘

اس معجزہ کو دیکھ کر بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے تورات کے احکام کو قبول کرنے کا اقرار کیا۔

وادی سینا کے جس میدان میں بنی اسرائیل اس وقت موجود تھے فلسطین سے قریب تھا۔

’’حضرت ابراہیمؑ ، حضرت اسحٰقؑ اور حضرت یعقوبؑ سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ ہم تمہاری اولاد کو پھر اس سرزمین پر مالک بنائیں گے۔‘‘

لہٰذا اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا:

’’اپنی قوم سے کہو کہ فلسطین میں داخل ہوں اور وہاں کے جابر و ظالم حکمرانوں کو نکال کر عدل و انصاف کی زندگی بسر کریں، ہم وعدہ کرتے ہیں کہ فتح تمہاری ہو گی۔‘‘

Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔