Topics
’’اے جیل کے رفیقوں الگ الگ کئی معبودوں سے ایک اللہ بہتر ہے۔ اللہ زبردست حکمت والا ہے۔ پوجنے کے لائق اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔ مگر نام رکھ لئے ہیں تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے۔ نہیں اتاری اللہ نے ان کی کوئی سند، حکومت نہیں ہے کسی کی سوائے اللہ کے، اس نے فرما دیا کہ نہ پوجو مگر اس کو، یہی ہے سیدھی راہ پر بہت لوگ نہیں جانتے۔‘‘
(سورۃ یوسف: ۴۰۔۳۹)
دو قیدیوں نے خواب دیکھے۔ ایک بادشاہ کا ساقی اور دوسرا باورچی تھا اور وہ بادشاہ کو زہر سے ہلاک کرنے کی سازش میں پکڑے گئے تھے۔ دونوں نے حضرت یوسفؑ کو اپنے اپنے خواب سنائے۔ ایک نے بتایا ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ انگور نچوڑ رہا ہوں۔‘‘
دوسرے نے کہا ’’میں نے دیکھا کہ سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے اسے کھا رہے ہیں۔‘‘
حضرت یوسفؑ نے تعبیر بتائی کہ انگور نچوڑنے والا بری ہو جائے گا اور اسے پھر ساقی گری سونپ دی جائے گی اور دوسرا سولی پر چڑھا دیا جائے گا اور اس کا گوشت مردار جانور کھائیں گے۔
بادشاہ کا خواب
حضرت یوسفؑ کے قصہ میں چوتھا خواب بادشاہ مصر ’’ملک الریان‘‘ کا ہے۔ بادشاہ نے تمام درباریوں کو جمع کر کے کہا۔ ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں انہیں سات دبلی گائیں نگل رہی ہیں اور سات بالیں ہری ہیں اور سات بالیں سوکھی۔‘‘
بادشاہ کے دربار میں ماہرین نے اس خواب کو بادشاہ کی پریشان خیالی قرار دیا لیکن بادشاہ کو اطمینان نہیں ہوا اور وہ ہر وقت پریشان رہنے لگا۔ بادشاہ کو پریشان دیکھ کر ساقی کو اپنا خواب اور اس کی تعبیر یاد آ گئی۔ اس نے حضرت یوسفؑ کے علم اور حکمت سے بادشاہ کو آگاہ کیا۔ بادشاہ نے اسے خواب کی تعبیر معلوم کرنے کے لئے حضرت یوسفؑ کے پاس بھیجا۔ حضرت یوسفؑ نے خواب کی یہ تعبیر بتائی کہ سات برس تک تم لگاتار کھیتی کرتے رہو گے۔ ان سات برسوں میں غلے کی خوب فراوانی ہو گی اور اس کے بعد سات برس بہت مصیبت کے آئیں گے اور سخت قحط پڑ جائے گا۔ ایک دانہ بھی نہیں اگے گا۔ ان سات سالوں میں وہی غلہ کام آئے گا جو پہلے سات سالوں میں ذخیرہ رکھا گیا ہو گا۔
خواب میں مستقبل بینی اور حضرت یوسفؑ کی بیان کردہ تعبیر سے بادشاہ بے حد متاثر ہوا۔ اس نے حضرت یوسفؑ کو رہا کر کے دربار میں حاضر کرنے کا حکم دیا۔ لیکن حضرت یوسفؑ نے رہا ہونے سے انکار کر دیا اور مطالبہ کیا کہ اس الزام کی تحقیق کی جائے جس کے تحت وہ قید کئے گئے تھے۔ بادشاہ کو یقین ہو گیا کہ قیدی صاحب حکمت بزرگ ہے۔ اور یہ برگزیدہ شخص یقیناً بے گناہ ہے ورنہ الزام کی تحقیق کا مطالبہ نہ کرتا اور جیل سے باہر بخوشی آ جاتا۔ شاہ مصر نے تحقیقات کا حکم دیا۔ تحقیقات کے نتیجے میں حضرت یوسفؑ بے گناہ ثابت ہوئے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔