Topics
قرآن کریم میں انبیاء کے تذکرے ہمیں اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ ہم اللہ کے برگزیدہ بندوں کی طرز فکر سے وقوف حاصل کریں۔ حضرت اسحٰقؑ اور حضرت یعقوبؑ سے منسوب واقعات کا بغور جائزہ لینے پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ انبیاء ایسے ذہن کے حامل ہوتے ہیں جن میں صبر اور شکر کی طرزیں مستحکم ہوتی ہیں۔ وہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کے حامل ہونے پر شکر ادا کرتے ہیں اور کسی نعمت کے حاصل نہ ہونے پر اس حد تک ملول و غمگین نہیں ہوتے کہ اللہ کے ناپسندیدہ فرد بن جائیں۔ وہ مشیت الٰہی کے تابع ہوتے ہیں اور مظاہر قدرت کے تحت ترتیب پانے والے واقعات میں رضائے الٰہی ان کے پیش نظر ہوتی ہے۔ باوجود اس کے کہ وہ وسیع تر اختیارات کے حامل ہوتے ہیں، واقعات کو اپنے حق میں استوار کرنے کے لئے ان میں کوئی تبدیل نہیں کرتے بلکہ اللہ کے حضور عجز و انکساری کا نذرانہ پیش کر کے التجا کرتے ہیں کہ اے رب کائنات! ثابت قدمی اور صبر و استقامت عطا فرما۔
حضرت یعقوبؑ نے اپنی پوری زندگی میں صبر و استقلال کا عظیم الشان مظاہرہ کیا۔ جب آپ کے فرزند اور جلیل القدر پیغمبر حضرت یوسفؑ اپنے ہی بھائیوں کے حسد کا شکار ہو کر باپ سے جدا ہو گئے تو باوجود اس کے کہ حضرت یعقوبؑ حقیقت حال سے باخبر تھے۔ مشیت الٰہی کے تحت خاموش ہو رہے اور انہوں نے اللہ کے بنائے ہوئے نظام کے تحت بیٹے سے ملنے کا انتظار کیا۔ بشری تقاضے کے تحت وہ بیٹے کی جدائی میں روتے رہے لیکن نافرمانی اور بے صبری کا ایک لفظ بھی زبان سے نہیں نکلا۔
پیغمبروں کی ساری زندگی اس عمل سے عبارت ہے کہ ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے۔ تمام انبیائے کرام اور ان کے وارث اولیاء اللہ کے اندر استغنا کی طرز فکر راسخ ہوتی ہے۔ انبیاء اس طرز فکر کو حاصل کرنے کا اہتمام اس طرح کیا کرتے تھے کہ وہ کسی چیز کے متعلق سوچتے تھے۔ ان کی طرز فکر ہمیشہ یہ ہوتی تھی کہ کائنات کی تمام چیزوں کا اور ہمارا مالک اللہ ہے۔ کسی چیز کا رشتہ براہ راست ہم سے نہیں ہے بلکہ ہم سے ہر چیز کا رشتہ اللہ کی معرفت ہے۔ رفتہ رفتہ ان کی یہ طرز فکر مستحکم ہو جاتی اور ان کا ذہن ایسے رجحانات پیدا کر لیتا کہ جب وہ کسی چیز کی طرف مخاطب ہوتے تو اس چیز کی طرف خیال جانے سے پہلے اللہ کی طرف خیال چلا جاتا۔ انہیں کسی چیز کی طرف توجہ دینے سے پیشتر یہ احساس عادتاً ہوتا کہ یہ چیز ہم سے براہ راست تعلق نہیں رکھتی۔ اس چیز کا اور ہمارا واسطہ محض اللہ کی وجہ سے ہے۔
اس طرز عمل میں ذہن کی ہر حرکت میں اللہ کا احساس قائم ہو جاتا ہے۔ اللہ ہی بحیثیت محسوس ان کا مخاطب ہو جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ اللہ کی صفات ان کے ذہن میں ایک مستقل مقام حاصل کر لیتی ہیں اور ان کا ذہن اللہ کی صفات کا قائم مقام ہو جاتا ہے۔
تفکر کرنے سے ۔۔۔سوچنے اور سمجھنے کے کئی رخ متعین ہوتے ہیں۔ تفصیل میں جانے کے بجائے ہم دو رخوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔
وہ لوگ جو عملی اعتبار سے مستحکم ذہن ہیں یعنی ایسا ذہن رکھتے ہیں جس میں شک نہیں ہوتا۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمارا یقین ہے کہ ہر چیز اس کی دنیا میں کوئی بھی حیثیت ہو، چھوٹی ہو یا بڑی ہو، راحت ہو یا تکلیف سب اللہ کی طرف سے ہے۔ ان لوگوں کے مشاہدے میں یہ بات آ جاتی ہے کہ کائنات میں جو کچھ موجود ہے، جو ہو رہا ہے، جو ہو چکا ہے یا آئندہ ہونے والا ہے سب کا سب اللہ کی طرف سے ہے۔
جس طرح اللہ کے ذہن میں کسی چیز کا وجود ہے اسی طرح اس کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ راسخ فی العلم لوگوں کے ذہن میں یقین کا ایسا پیٹرن بن جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ہر عمل اور زندگی کی ہر حرکت، ہر ضرورت اللہ کے ساتھ وابستہ کر دیتے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ ہمارے لئے اللہ نے جو نعمتیں مخصوص کر دی ہیں وہ ہمیں ہر حال میں میسر آئیں گی اللہ کے اوپر یقین ان کے اندر استغناء پیدا کر دیتا ہے۔
استغنا کی تعریف
قانون یہ ہے کہ استغنا یقین کے بغیر پیدا نہیں ہوتا اور یقین کی تکمیل مشاہدے کے بغیر نہیں ہوتی اور جس آدمی کے اندر استغنا نہیں ہوتا اس کا تعلق مادی دنیا (اسفل) سے زیادہ رہتا ہے۔
اور جس بندے کے اندر استغنا نہیں ہوتا اس کا ذہن بے یقینی اور وسوسوں میں گھرا رہتا ہے اس کے اوپر مستقبل کا خوف طاری ہوتا ہے جو نعمتیں اسے ماضی میں حاصل ہوتی رہی ہیں ان کی طرف ذہن جاتا ہی نہیں۔
مثال:
ایک بچہ پیدا ہوا وہ اس حالت میں ہے کہ وہ کروٹ بدل سکتا ہے نہ ہاتھ سے کوئی چیز پکڑ سکتا ہے اور نہ پیروں سے چلتا ہے۔ اس کا ہر کام دوسرے لوگ کرتے ہیں۔ دودھ ماں پلاتی ہے، صفائی ستھرائی ماں کرتی ہے، کپڑے ماں تبدیل کرتی ہے۔ اس طرح بچہ گھنٹوں، دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں کے زمانے کو عبور کرتا ہوا لڑکپن میں داخل ہوتا ہے۔ لڑکپن سے جوانی کا آغاز ہوتا ہے۔
پڑھتا لکھتا ہے۔ محنت مزدوری کرتا ہے۔ کاروبار کرتا ہے۔ ایک دن کا بچہ جب جوان ہوتا ہے تو اس کی شادی ہو جاتی ہے، شادی کے بعد بچے ہوتے ہیں۔ بچوں کے بچوں کی تقریبات کرتا ہے۔ بوڑھا ہو جاتا ہے۔
لیکن جب وہ مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے تو فکر مندی کا مظاہرہ کرتا ہے وہ یہ نہیں سوچتا کہ ایک دن کی عمر سے ساٹھ سال یعنی اکیس ہزار نو سو دن تک اسے ہر آسائش مہیا کی گئی ہے۔ مزید عمر میں وہ اللہ کی نعمتوں سے کیسے محروم ہو سکتا ہے۔
استغنا کے حامل افراد کے یقین میں یہ بات مستحکم ہوتی ہے کہ آدمی حالات کے ہاتھ میں کھلونا ہے۔ حالات کھلونے میں جس طرح چابی بھر دیتے ہیں آدمی اسی طرح چلنے پر مجبور ہے اور کھلونے کی چابی کا رکھوالا، محافظ اور مطلق حاکم اللہ ہے۔
٭٭٭٭٭
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔