Topics
نصیحت
’’اور ہم نے لقمان کو عقلمندی دی کہ اللہ کا شکر ادا کرے کہ اور جو کوئی اللہ کا شکر ادا کرتا ہے وہ اپنا ہی بھلا کرتا ہے۔
اور جو کوئی ناشکری کرتا ہے تو اللہ تو بے نیاز اور حمید ہے۔ اور لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اے میرے پیارے بیٹے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ بلا شبہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔
اے میرے پیارے بیٹے! چاہے کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو اور وہ کسی چٹان میں یا آسمانوں میں کہیں بھی ہو اللہ اسے ضرور اپنے سامنے حاضر کرے گا۔ بے شک اللہ ہر چھپی سے چھپی چیز کو دیکھنے والا ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔‘‘
’’اے میرے پیارے بیٹے! نماز قائم کرو اور اچھی باتوں کا حکم دے اور بری باتوں سے روک دے اور جو کچھ مصیبت تجھ پر پڑے سب کو جھیل، بے شک ہمت کے کام یہی ہیں اور دیکھ لوگوں کے سامنے اپنے گال کو مت پھلانا اور زمین پر اترا کر مت چلنا۔ بے شک اللہ کو اترانے والے اور خود اپنی بڑائی جتانے والے لوگ پسند نہیں ہیں اور اعتدال کی چال چلنا اور آواز کو نیچا رکھنا۔ بلاشبہ سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔‘‘
(سورۃ لقمان: ۱۳۔۱۹)
حضرت لقمان علیہ السلام پیغمبرانہ صفات کے حامل ایک صاحب حکمت اور برگزیدہ بندے تھے۔ آپ کے نام سے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ’’سورۃ لقمان‘‘ نازل کی ہے۔ تاریخ میں آپ کی شخصیت اور زمانے کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض مورخین کے مطابق حضرت لقمان علیہ السلام کا تعلق قوم عاد سے تھا اور آپ یمن کے بادشاہ تھے۔ لیکن اکثریت کی رائے میں آپ حبشی النسل تھے اور سوڈان کے ایک قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔
یہ بھی روایت ہے کہ آپ حضرت داؤد علیہ السلام کے ہم عصر تھے اور قاضی کے منصب پر فائز تھے۔ شواہد ملتے ہیں کہ ’’صحیفہ لقمان‘‘ کے نام سے آپ کے اقوال کا ایک مجموعہ حضورﷺ کے زمانے میں موجود تھا۔
قرآن حکیم نے حضرت لقمان علیہ السلام کو موحد اور حکیم بیان کیا ہے۔
’’اور ہم نے لقمان کو حکمت دی کہ وہ اللہ کا شکر گزار ہو۔‘‘
(سورۃ لقمان۔۱۲)
اور ہم نے انسان کو تاکید کر دی ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ اس کی ماں نے مصیبت پر مصیبت جھیل کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور پھر کہیں دو برس میں جا کر دودھ چھوٹا۔ لہٰذا تو میرا شکر ادا کر اور اپنے ماں باپ کا بھی۔ آخر لوٹ کر میرے ہی پاس تو آنا ہے۔ اور ہاں اگر تیرے ماں باپ یہ کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ تیرے پاس کسی کے شریک ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے تو ہرگز ان کا کہنا نہ ماننا۔ البتہ دنیاوی حقوق میں ان کا ساتھ دیتے رہنا اور راستہ انہی لوگوں کا اخیتار کرنا جن کا رخ میری طرف ہو کیونکہ آخر کار تم سب کو میری طرف لوٹ کر آنا ہے پھر تم جو کچھ کرتے تھے میں تمہیں سب کچھ بتا دونگا۔
حضرت لقمان علیہ السلام کی تعلیمات
حضرت لقمان علیہ السلام کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ :
’’اے بیٹا! جب کسی صحبت میں جاؤ تو لوگوں کو سلام کر کے بیٹھ جاؤ۔ اگر وہ لوگ خدا کے ذکر میں مشغول ہوں توٹھہر جاؤ۔ اور اگر کسی اور کے ذکر میں مصروف ہوں تو ان کی صحبت چھوڑ دو۔ اور دامن جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہو۔
اے بیٹا! برے لوگوں سے پناہ مانگتے رہو۔ اور جو اچھے ہیں ان سے بھی ڈرتے رہو۔ دنیا میں نہ پھنسو اور اپنے دل کو اس میں نہ لگاؤ۔
کیونکہ تم دنیا کے لئے نہیں پیدا کئے گئے۔
اے بیٹا! جو کوئی دوسروں پر رحم کرتا ہے، خود اس پر بھی رحم کیا جاتا ہے۔ جو خاموش رہتا ہے، امن میں رہتا ہے۔ جو اچھی بات کہتا ہے، اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ جو شخص جھوٹ بولتا ہے، گنہگار ہے۔ جو زبان اپنے قابو میں نہیں رکھتا، ندامت اٹھاتا ہے۔ اے بیٹا!
برگزیدہ علماء کی صحبت میں گھٹنوں کے بل جاؤ اور ان کی خدمت میں خاموش بیٹھ کر کان لگاؤ۔ اس لئے کہ علماء کے نور سے دل اس طرح زندہ ہو جاتا ہے جس طرح مردہ زمین آسمان کے مینہ سے ہو جاتی ہے۔‘‘
قرآن کریم میں ارشاد ہے
’’اور اے رسول وہ وقت یاد کیجئے کہ جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اللہ کا شریک کسی کو مت بناؤ کیونکہ شرک بڑا سخت گناہ ہے۔
اور اے رسول اس وقت کے آنے سے پہلے جو خدا کی طرف سے ٹل نہیں سکتا۔ اپنا منہ صحیح دین پر قائم رکھنا۔ اس روز سب لوگ الگ الگ ہو جائیں گے۔ اور ہم آپ سے پہلے لقمان کو حکمت دے چکے ہیں اور ہم نے اس سے کہا کہ اللہ کا شکر ادا کرو۔ اور جو کوئی شکر ادا کرے گا اپنے ہی بھلے کے لئے کرے گا۔ اور جو کوئی ناشکری کرے تو اللہ تعالیٰ بے پرواہ ہے، خوبیوں والا ہے اور ہم نے آدمی کو ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔‘‘
شکر کا مطلب ’’استعمال‘‘ ہے
حضرت لقمان علیہ السلام کی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم نبوت سے سرفراز کیا تھا۔ حضرت لقمان علیہ السلام ایک ہزار برس پورے کر کے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ حضرت لقمان علیہ السلام کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جڑی بوٹیوں میں خاصیت کا علم عطا کیا تھا۔ اور جڑی بوٹیاں انہیں اپنی اپنی خاصیت سے آگاہ کرتی تھیں۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے علم طب کی تدوین کی۔ دواؤں کی خاصیت اور ان کے استعمال کے طریقے بتائے۔ حضرت لقمان علیہ السلام کے قصے سے اس بات کا علم حاصل ہوتا ہے کہ شکر کا مطلب استعمال ہے۔ اگر حضرت لقمان علیہ السلام حکمت و دانائی کو استعمال نہ کرتے اور لوگوں تک علم منتقل نہ کرتے اور صرف زبان سے یا اللہ تیرا شکر یا اللہ تیرا شکر کرتے رہتے تو شکر کا تقاضا پورا نہ ہوتا۔
مثال: اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین لباس عطا فرمائیں اور آپ اسے الماری میں سجا کر رکھ دیں۔ زیب تن نہ کریں تو شکر کا مفہوم پورا نہیں ہوگا۔ لباس کو پہنیں، آرام پائیں، خوش ہوں اور اللہ کا شکر ادا کریں۔ یہی شکر ہے۔
٭٭٭٭٭
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔