Topics

حضرت عزیر علیہ السلام

بنی اسرائیل نے جب حضرت یرمیاہؑ کی تعلیمات کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تو حضرت یرمیاہؑ نے بنی اسرائیل کی غلامی کی پیشن گوئی کی۔ بخت نصر نے ارض مقدس پر حملہ کیا۔ اس حملے میں بیت المقدس کو شدید نقصان پہنچا اور بنی اسرائیل کا مالی اور جانی بہت زیادہ نقصان ہوا۔ توراۃ کے تمام نسخے جلا کر راکھ کر دیئے گئے۔ اسرائیلیوں کو قید کر کے بابل لے جایا گیا۔ ان قیدیوں میں کم سن حضرت عزیزؑ بھی شامل تھے۔ حضرت عزیر علیہ السلام کی ابتدائی تربیت بابل میں ہوئی۔ حالت اسیری میں حضرت دانیالؑ نے تربیت کی۔

بابل شہر

بخت نصر نے اسرائیلی اسیروں میں سے صاحب علم و دانش کو شاہی دربار سے منسلک کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کی نظر انتخاب چار افراد پر پڑی۔ حضرت دانیالؑ ، خنیاہؔ ، میسا ایلؔ اور حضرت عزیزؑ ۔ ان چاروں افراد کو کلدانی( بابلی زبان) زبان سکھائی گئی۔ شاہی خلت دی گئی اور شاہی دسترخوان پر کھانے کا انتظام ہوا۔ لیکن شاہی غذا میں غیر شرعی اشیاء بھی شامل تھیں۔ لہٰذا ان لوگوں نے شاہی غذا کھانے سے انکار کر دیا۔ بخت نصر کو جب اس کا علم ہوا تو ان چاروں افراد کو دربار میں طلب کر کے ان سے گفتگو کی۔ حضرت عزیرؑ نے اخلاق و آداب پر تقریر کی۔ بخت نصر حضرت عزیر علیہ السلام کی قابلیت سے بے حد متاثر ہوا اور آپ کو بابل کا گورنر بنا دیا۔

وادی دجلہ و فرات مہذب و متمدن اور مقتدر اقوام کا مرکز رہی ہے۔ ان اقوام میں بابلی قوم بھی شامل ہے۔ بابل سلطنت بابلیہ کا دارالحکومت تھا۔ یہ شہر تمام اشوری شہروں سے زیادہ پرشکوہ اور قدیم تھا۔ شہر کا حدود اربعہ ۵۶ میل تھا۔ دیوار پناہ ۳۲۰ فٹ اونچی اور ۸۰ فٹ چوڑی تھی۔ اس طویل اور چوڑی دیوار میں (۱۰۰) سو دروازے تھے (ان سب دروازوں پر تابنے کی پتریاں چڑھی ہوئی تھیں ، دور سے دیکھنے پر گمان ہوتا تھا کہ پورا دروازہ تانبے کا بنا ہوا ہے)۔ دیوار بابل تقریباً ۲۲۰۴ فٹ لمبی تھی۔ اس سے تقریباً ۳۸ فٹ باہر ۲۵ فٹ موٹی ایک اور دیوار تھی۔ جس کے بعد ۱۲ فٹ چوڑی ایک اور دیوار تھی۔ اندرونی دو دیواروں کی درمیانی جگہ کو ملبہ ڈال کر دیوار کے اوپر چوڑا راستہ بنا دیا گیا تھا۔ جس پر حفاظتی دستے گھوڑوں پر سوار شہر کی حفاظت کے لئے گشت پر رہتے تھے۔ 

اندرونی دیوار کے ساتھ ہر ۱۶۵ فٹ کے فاصلے پر ۲۷ فٹ اونچا حفاظتی مینار تھا۔ اس طرح کے کل ۳۶۰ مینار تھے۔

شہر کے مرکز سے ایک عظیم الشان شاہراہ شمال سے جنوب کی سمت جاتی تھی۔ یہ شاہراہ ۷۳ فٹ چوڑی تھی۔ اس کے دونوں کناروں پر ۲۳ موٹی موٹی اونچی دیواریں تھیں۔ جو نہایت چمکدار، رنگین اور روغنی اینٹوں سے مزین تھیں۔ دیواروں کے ساتھ ساتھ ہر ۶۴ فٹ کے فاصلے پر نیلے پس منظر میں پتھر کے سرخ اور زرد ٹائل لگے ہوئے تھے۔ اینٹوں سے بنی ہوئی سڑک پر اسفالٹ بچھایا گیا تھا اور اس پر چونے کے پتھر کی بڑی بڑی سلیں رکھ دی گئی تھیں۔ ہرسل پر یہ الفاظ کندہ تھے۔

’’بخت نصر بن بنو بلیہ بابل کے بادشاہ نے یہ شاہراہ بابل بنائی ہے۔ ستاروں کی سلوں سے، پروردگار عظیم مردوک کے جلوس کے لئے، ہمارا آقا خداوند مردوک۔‘‘

اس شاہراہ پر سے بابل کے بڑے دیوتا مردوک کے پروہتوں کا جلوس گزرتا تھا۔ پروہت کے ساتھ قربانی کے جانور ہوتے تھے۔ 

ڈھول بجتے تھے، نفیریاں گیت گاتی تھیں اور ہزاروں پجاری پیچھے پیچھے چلتے تھے۔ یہ شاہراہ دفاعی نقطۂ نظر سے بھی اہمیت کی حامل تھی۔ شاہراہ فصیل شہر سے اندرونی قلعے کی طرف جاتی تھی۔ دشمن جو قلعے پر طوفان بن کر آتے تھے اسے ’’راہ مقدس‘‘ سے ہو کر وہاں پہنچنا پڑتا تھا۔ لیکن وہاں دشمن کو سڑک کی لمبائی کے ساتھ ساتھ گزرنے والی اونچی دیواروں کے باعث ایک پٹی کی صورت میں چلنا پڑتا۔ دیواروں کی چوٹیوں پر سے بابلی افواج تیروں کی بوچھاڑ کر کے بہ آسانی حملہ آوروں کو ہلاک کر دیتی تھی۔

راہ مقدس ’’باب عشتار‘‘ تک جاتی تھی۔ عشتار اہل بابل کی سب سے بڑی دیوی تھی۔ اس کے نام سے موسوم عظیم الشان دو ہرا دروازہ تھا۔ اس دروازے کی آرائش سینکڑوں چمکدار اور رنگین سانڈوں اور دیگر جانوروں کی تصویروں سے کی گئی تھی۔


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔