Topics

حضرت شعیب علیہ السلام

حضرت ابراہیمؑ کی تیسری زوجہ قطورہ کے بطن سے چھ بیٹے تولد ہوئے۔ ایک بیٹے کا نام مریان تھا۔ حضرت شعیبؑ کا تعلق قبیلہ مریان سے تھا۔ مریان یا مدین کی شادی حضرت لوطؑ کی صاحبزادی سے ہوئی اور وہ اپنے اہل و عیال کے ہمراہ حجاز میں آباد ہوئے۔ 

مدین بن ابراہیم کی اولاد میں تمام قبائل انہیں کے نام سے مشہور ہوئے۔ حضرت شعیبؑ کی بعثت کے وقت یہ قبائل بحر قلزم کے مشرقی کنارے اور عرب کے شمال مغرب میں شام سے متصل حجاز کے سرحدی علاقے میں آباد تھے۔

حضرت شعیبؑ کا زمانہ سولہویں یا سترہویں صدی قبل مسیح بنایا جاتا ہے۔ توراۃ نے آپ کا تذکرہ حویاب (Hobab) اور یترو(Jethro) کے نام سے کیا ہے۔ حضرت شعیبؑ بڑے فصیح و بلیغ مقرر تھے۔ شیریں کلامی، حسن خطابت اور طرز بیان میں اپنا منفرد انداز رکھتے تھے۔ آپ خطیب الانبیاء مشہور ہیں۔

حجاز میں خوشگوار آب و ہوا کی وجہ سے حجاز میں درخت، پھولوں اور پھلوں سے بھرے رہتے تھے۔ شاداب، اونچے اور گھنے درخت آسمان سے باتیں کرتے تھے۔

قرآن حکیم نے وہاں کے باسیوں کو ’’اصحاب الایکہ‘‘ کا نام دیا ہے۔ ’’ایکہ‘‘ سرسبز و شاداب پھولوں سے لدی ہوئی جھاڑیوں کو کہتے ہیں۔ شاداب زمین اور بستی کے چاروں طرف باغات کی وجہ سے اہل مدین متمول اور خوشحال تھے۔ تجارت ان کا پیشہ تھا۔ دین ابراہیمی پر یہ قوم جب تک عمل پیرا رہی مادیت کی چکا چوند اور سونے چاندی کی چمک ان کو مرعوب نہ کر سکی۔ قوم نے جب الہامی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا اور اجتماعی فلاح کی جگہ ذاتی اغراض اور انفرادی مفادات نے لے لی تو لوگ گمراہ ہو گئے۔ حضرت شعیبؑ کی قوم راندہ درگاہ ابلیس کی طرح کبر و نخوت میں مبتلا ہو کر گمراہی کے راستے پر چل پڑی۔ دوسرے لفظوں میں ابلیس نے نسل آدم سے بدلہ لینے کے لئے یہ حربہ استعمال کیا کہ ان کے اندر غرور و تکبر کا بیج بو دیا۔ زمین کی زرخیزی، باغوں کی شادابی، وسائل کی فراوانی، تجارت میں نفع اور زندگی کی ہر آسائش مہیا ہونے سے لوگ یہ سمجھنے لگے تھے کہ یہ سب کچھ ان کی محنت اور زور بازو کا نتیجہ ہے۔ اللہ کریم کی بخشش اور عطا سے ان کی نظر ہٹ گئی تھی۔ شکر گزاری ختم ہو گئی تھی۔ کبر و نخوت سے گردنیں تن گئی تھیں۔ دماغ میں گھمنڈ بھر گیا تھا۔ دل زنگ آلود ہو گئے تھے۔ جب دل کا آئینہ دھندلا ہو جاتا ہے تو نگاہ محدود ہو جاتی ہے۔ انا کے خول میں بند ہو کر انسان اجتماعی احساسات سے دور ہو جاتا ہے۔

محدود حواس کا قانون

قانون یہ ہے کہ خود غرض انسان پر محدود اور تغیر پذیر حواس کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ باہمی اخوت اور محبت اس کے اندر سے نکل جاتی ہے۔ حقوق العباد پامال ہونے لگتے ہیں۔ سرکشی عام ہو جاتی ہے۔ نافرمانی فسق و فجور کا دوسرا نام ہے۔ فسق و فجور سے شرافت دور ہو جاتی ہے۔ شرافت دور ہو جانے سے بے حیائی پھیل جاتی ہے اور اخلاقی برائیاں سربازار عام ہو جاتی ہیں۔

حضرت شعیبؑ کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے لاشمار نعمتوں سے نوازا تھا۔ اگرچہ نعمتوں کی فراوانی کو اپنی محنت کا ثمر اور آباؤ اجداد کی وراثت سمجھتے تھے لیکن مال و زر چھن جانے کے خوف سے پریشان بھی رہتے تھے۔ جب ان کے اوپر حرص و ہوس کا غلبہ ہو گیا تو انہوں نے مال و دولت جمع کرنا شروع کر دیا اور پوری قوم دولت پرستی میں مبتلا ہو گئی۔ دولت پرستی سب سے بڑا شرک ہے جتنی قومیں تباہ ہوئی ہیں اکثر دولت پرستی کی وجہ سے ہلاک ہوئی ہیں۔

وہ عظیم الجثہ بت بعل(متشرقین یورپ کی تحقیق کے مطابق بعل ستارہ زحل کا نام تھا) پتھر سے تراش کر اس پر گل پاشی کرتے تھے اور عطر چھڑکتے تھے۔ اونٹ کی بھینٹ دیتے تھے۔ سونے، چاندی اور بیش قیمت زیورات سے مزین پتھر کی مورتی کے سامنے اولاد قربان کر دیتے تھے۔ بعد میں یہی بت ’’ہبل‘‘ کے نام سے عرب کے طول و عرض میں پوجا جانے لگا۔

قوم کی مذہبی اور اخلاقی حالت بدتر ہو گئی تو قدرت نے ہدایت اور رہنمائی کے لئے انہی میں سے ایک شریف النفس صاحب علم و ہستی کو حق کا پیامبر بنا کر مبعوث کیا۔

’’اور مدین کو بھیجا ان کا بھائی شعیب بولا اے قوم! بندگی کرو اللہ کی کوئی نہیں تمہارا صاحب اس کے سوا۔‘‘

(سورۃ اعراف۔ ۸۵)

حضرت شعیبؑ نے رشد و ہدایت کی تعلیم دیتے ہوئے قوم کو خدائے واحد کی طرف بلایا اور دین حنیف کی تعلیمات پر عمل کرنے کی تلقین کی۔ اخلاقی برائیوں کی نشاندہی کی۔ شرک اور بداعمالیوں کو ترک کرنے کی تلقین کی۔

’’اور نہ گھٹاؤ ناپ اور تول، دیکھتا ہوں کہ تم کو آسودہ اور ڈرتا ہوں تم پر آفت سے، ایک گھیر لانے والے دن کی اور اے قوم! پورا کرو ناپ اور تول انصاف سے اور نہ گھٹا دو لوگوں کو ان کی چیزیں اور نہ پھیلاؤ زمین میں خرابی۔‘‘

(سورۃ ہود: ۸۴۔۸۵)

تجارتی اور پیشہ ورانہ بددیانتی اس قوم کی وجہ شہرت تھی۔ ناپ تول میں کمی اور گھٹیا مال کو اچھا کہہ کر زیادہ داموں فروخت کرنا، دھوکہ اور فریب سے حلال کو حرام کرنا ان لوگوں کا وطیرہ تھا۔ حضرت شعیبؑ کی پند و نصائح پر عمل کرنا لوگوں کے نزدیک اضافی نفع سے محروم ہو جانا تھا۔ حضرت شعیبؑ نے انہیں نصیحت کی کہ اپنے کاروبار کو حرام کی آلائش سے پاک رکھو۔ حلال روزی کماؤ۔ آپ نے اپنی قوم کو بتایا کہ مال و دولت کی ہوس آدمی کی صلاحیتوں کو دیمک بن کر چاٹ جاتی ہے۔ اچھے برے کی تمیز ختم ہو جاتی ہے اور آدمی ہر طریقے سے دولت جمع کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔

حضرت شعیبؑ نے نافرمان قوموں کی تباہی سے سبق سیکھنے کی تلقین کی اور تنبیہہ کی کہ حق بات کو جھٹلانے سے بربادی ان کا مقدر بن جائے گی۔

’’اور اے برادران قوم! میرے خلاف تمہاری ہٹ دھرمی کہیں یہ نوبت نہ پہنچا دے کہ آخر کار تم پر بھی وہی عذاب آ کر رہے جو نوح یا ھود یا صالح کی قوم پر آیا تھا۔ اور لوط کی قوم تو تم سے کچھ زیادہ دور بھی نہیں ہے۔ دیکھو! اپنے رب سے معافی مانگو اور اس کی طرف پلٹ آؤ، بے شک میرا رب رحیم ہے اور اپنی مخلوق سے محبت رکھتا ہے۔‘‘

(سورۃ ھود: ۸۹۔۹۰)

حضرت شعیبؑ نے صفحہ ہستی سے مٹ جانے والی اقوام کے قصے بیان کر کے ان کے نابود ہو جانے کی وجوہات بیان کیں مگر قوم پر ذرہ برابر اثر نہیں ہوا۔ فرمانبرداری اور تابع داری کرنے والے افراد کی تعداد، جھٹلانے اور رد کرنے والوں کے مقابلے میں ناقابل تذکرہ تھی۔ سربر آوردہ اشخاص حضرت شعیبؑ کے پاس جانے والے لوگوں کو روکتے تھے اور نہیں ڈراتے دھمکاتے تھے اور اذیتیں پہنچاتے تھے۔ ایسے حالات میں حضرت شعیبؑ قوم کے بااثر افراد سے مخاطب ہو کر فرماتے تھے۔

’’اور (زندگی کے) ہر راستے پر رہزن بن کر نہ بیٹھ جاؤ کہ لوگوں کو خوفزدہ کرنے اور ایمان لانے والوں کو خدا کے راستے سے روکنے لگو اور سیدھی راہ کو ٹیڑھا کرنے کے درپے ہو جاؤ۔ اور یاد کرو وہ زمانہ جب کہ تم تھوڑے تھے پھر اللہ نے تمہیں بہت کر دیا اور آنکھیں کھول کر دیکھو کہ دنیا میں مفسدوں کا کیا انجام ہوا۔‘‘

(سورہ اعراف۔ ۸۶)


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔