Topics
سموئیل عبرانی میں ’’اشماع ایل‘‘ ہے۔ جس کے معنی سننا (شماع) اور اللہ (ایل) یعنی اللہ کا سننا ہے۔ عربی میں اس کا تلفظ اسماعیل بھی ہے۔ آپ کے والد کی دو بیویاں تھیں۔ ایک کا نام فنّنہ اور دوسری بیوی کا نام حنّہ تھا۔ حنّہ کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ انہوں نے منت مانی کہ اللہ انہیں اولاد سے نوازے اور لڑکا پیدا ہونے کی صورت میں وہ اسے خدا کی نذر کر دیں گی۔ جب حضرت سموئیل حنّہ کے بطن سے پیدا ہوئے اور رضاعت کا زمانہ ختم ہوا تو آپ کی والدہ نے منت کے مطابق آپ کو عیلی کاہن کے سپرد کر دیا۔ آپ نے عیلی کاہن کی نگرانی میں پرورش پائی۔
حضرت یوشع نے اپنے زمانے میں قاضیوں کا تقرر کیا تھا۔ خاندانوں اور قبیلوں میں ’’سردار‘‘ حکومت کرتے اور ان کے تصفیہ طلب امور اور دیگر معاملات کے فیصلے ’’قاضی‘‘ انجام دیتے تھے۔ اور اگر کوئی نبی مبعوث ہوتا تو وہ ان تمام امور کی نگرانی کے ساتھ ساتھ دین کی تبلیغ اور ترویج کی خدمت انجام دیتے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ساڑھے تین سو سال بعد تک یہ نظام چلتا رہا اور اس دوران بنی اسرائیل کا کوئی بادشاہ یا حکمران نہیں ہوا۔
حضرت سموئیلؑ بنی اسرائیل کے قاضی تھے۔ آپ کو منصب نبوت عطا ہوا اور بنی اسرائیل کی رشد و ہدایت کے لئے مامور کیا گیا۔
آپ کا زمانہ بعثت تقریباً ۱۱۰۰ ق۔م بتایا جاتا ہے۔ حضرت سموئیلؑ کا مستقل قیام اپنے آبائی شہر رامہ میں تھا۔ لیکن آپ بسلسلہ عدالت ہر سال مختلف مقامات کا دورہ کرتے تھے۔ ساری عمر آپ نے ہدایت و تبلیغ اور عدالت کے فرائض انجام دیئے۔ نبوت سے سرفرازی کے وقت آپ کو خبر دی گئی کہ عیلی کاہن کے بیٹوں کی بدکاری کے سبب اس کا گھرانہ تباہ کر دیا جائے گا۔
اشدود قوم
حضرت یوشع کے انتقال کے وقت ارض فلسطین کا بہت سا حصہ فتح نہیں ہوا تھا۔ بعد ازاں بنی اسرائیل شرک و بت پرستی اور گناہ اور معصیت میں مبتلا ہو گئے اور قرب و جوار کی قومیں ان پر وقتاً فوقتاً حملہ آور ہو کر غالب آ گئیں۔ حضرت سموئیلؑ کی بعثت کے زمانے میں اشدودی قوم سے جنگ میں بنی اسرائیل کو سخت ہزیمت اٹھانا پڑی۔ چار ہزار کے لگ بھگ افراد میدان جنگ میں مارے گئے۔
عیلی کاہن کے دونوں بیٹے جنگ میں ہلاک ہوئے اور اس صدمے سے نوے سالہ عیلی کاہن بھی فوت ہو گیا اور حملہ آور ’’عہد کا صندوق‘‘ بنی اسرائیل سے چھین کر اپنے ساتھ لے گئے اور اپنے سب سے بڑے دیوتا ’’وجون‘‘ کے مندر میں رکھ دیا۔
اس اندوہناک واقعہ کے بعد حضرت سموئیلؑ نے بنی اسرائیل کو جمع کیا اور انہیں گرماہی اور نافرمانی ترک کر کے توحید اور اطاعت گزاری کی نصیحت کی۔
’’اور سموئیلؑ نے اسرائیل کے سارے گھرانے سے کہا کہ اگر تم دلجمعی کے ساتھ خداوند کی طرف رجوع کرتے ہو تو اجنبی دیوتاؤں اور عستارات (بابل والوں کا قدیم بت جس کی بنی اسرائیل نے پوجا شروع کر دی تھی) کو اپنے درمیان سے دور کر دو اور خداوند کے لئے اپنے دلوں کو مستعد کر کے فقط اسی کی عبادت کرو اور وہ فلستیوں کے ہاتھ سے تمہیں رہائی دے گا۔‘‘
(کتاب سموئیل اول باب ۷)
آپ کے وعظ و نصیحت کا اثر بنی اسرائیل پر ہو ااور انہوں نے شرک و بت پرستی سے توبہ کی اور اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا۔ حضرت سموئیلؑ نے بنی اسرائیل کو جمع کیا۔ اس روز سب نے تمام دن اللہ کی عبادت میں گزارا اور روزہ رکھا۔ حضرت سموئیلؑ نے بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہو کر بنی اسرائیل کی خطاؤں اور گناہوں کی اللہ کریم سے معافی مانگی۔
مشرکین کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے حملہ کر دیا۔ بنی اسرائیل اس اچانک افتاد سے گھبرا گئے اور حضرت سموئیلؑ سے درخواست کی کہ وہ اللہ کے حضور دعا کریں کہ اللہ بنی اسرائیل کو مشرکین کے مقابلے میں فتح و نصرت عطا کرے۔ حضرت سموئیلؑ نے بارگاہ رب العزت میں دعا کی، دعا قبول ہوئی اور اللہ نے بنی اسرائیل کو فتح سے نواز دیا۔
’’اور جب فلستیوں نے سنا کہ بنی اسرائیل معناہؔ میں جمع ہوئے تو ان کے سرداروں نے بنی اسرائیل پر چڑھائی کی اور جب بنی اسرائیل نے یہ سنا تو وہ فلستیوں سے ڈرے۔ اور بنی اسرائیل نے سموئیل سے کہا کہ خداوند ہمارے خدا کے حضور فریاد کرنا نہ چھوڑ۔ تا کہ وہ ہم کو فلستیوں کے ہاتھ سے بچائے۔ اور سموئیل نے ایک دودھ پیتا برہ (بکری یا بھیڑ کا بچہ) لیا اور اسے قربانی کے طور پر خداوند کے حضور پیش کیا اور سموئیل خداوند کے حضور فریاد کرتا رہا اور خداوند نے اس کی فریاد سن لی۔ اور جس وقت سموئیل اس سوختنی کو قربانی کو پیش کر رہا تھا اور اس وقت فلستی اسرائیلیوں سے جنگ کرنے کو نزدیک آئے لیکن خداوند فلستیوں کے اوپر بڑی کڑک کے ساتھ گرجا اور ان کو گھبرا دیا اور انہوں نے اسرائیلیوں کے سامنے شکست کھائی۔‘‘
(سموئیل باب ۷: ۱۱۔۷)
اس عذاب میں مشرکین کے ہزاروں افراد ہلاک ہو گئے۔ عترونؔ سے جاتؔ تک کے شہر اور اس کے گرد و نواح کے کافی علاقے جن پر فلستیوں نے قبضہ کر رکھا تھا دوبارہ بنی اسرائیل کے زیر تسلط آ گئے۔
سموئیلؑ کا قوم سے خطاب
حضرت سموئیلؑ ایک عرصے تک دین کی تبلیغ اور ترویج میں مصروف رہے۔ عمر کے آخری حصے میں آپ نے اپنے بیٹوں یوئیل (Joel) اور ابیاہ (Abiah) کو قاضی مقرر کر دیا۔ لیکن طمع، خود غرضی اور ہوس نے آپ کے بیٹوں کو اس عہدے کے قابل نہیں رہنے دیا۔ بنی اسرائیل آپ سے مطالبہ کرنے لگے کہ ان کے لئے بادشاہ کا تقرر کیا جائے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت طالوتؑ کو بنی اسرائیل کا بادشاہ مقرر کر دیا۔ اس وقت آپ نے نہایت فصیح و بلیغ خطاب کیا، جو توراۃ میں اس طرح مذکور ہے۔
پھر سموئیل لوگوں سے کہنے لگا وہ خداوند ہی ہے جس نے موسیٰ علیہ السلام اور ہارون کو مقرر کیا اور تمہارے باپ دادا کو ملک مصر سے نکال لایا۔ سو اب ٹھہرے رہو تا کہ میں خداوند کے حضور ان سب نیکیوں کے بارے میں جو خداوند نے تم سے اور تمہارے باپ دادا سے کیں گفتگو کروں۔ جب یعقوب مصر میں گیا اور تمہارے باپ دادا نے خداوند سے فریاد کی تو خداوند نے موسیٰ اور ہارون کو بھیجا جنہوں نے تمہارے باپ دادا کو مصر سے نکال کر اس جگہ بسایا مگر وہ اپنے خدا کو بھول گئے۔ ہم کو دشمنوں کے ہاتھ سے جو ہمارے چاروں طرف تھے رہائی دی اور تم سکھ چین سے رہنے لگے۔ اب جب تم نے دیکھا کہ بادشاہ ناصؔ تم پر چڑھ آیا تو تم نے مجھ سے کہا کہ ہم پر کوئی بادشاہ سلطنت کرے حالانکہ خداوند خدا تمہارا بادشاہ تھا۔ سو اب اس بادشاہ کو دیکھو جسے تم نے چن لیا اور جس کے لئے تم نے درخواست کی تھی۔ دیکھو خداوند نے تم پر بادشاہ مقرر کر دیا ہے۔ اگر تم خداوند کی پرستش اور اس کی بات مانتے رہو اور خداوند کے حکم سے سرکشی نہ کرو اور تم اور وہ بادشاہ بھی جو تم پر سلطنت کرتا ہے، اپنے خدا کے پیروکار بنے رہو تو خیر۔ پر اگر تم خداوند کی بات نہ مانو بلکہ خداوند سے حکم سے سرکشی کرو تو خداوند کا ہاتھ تمہارے خلاف ہو گا جیسے وہ تمہارے باپ دادا کے خلاف ہوتا تھا۔ سو اب تم ٹھہرے رہو اور اس بڑے کام کو دیکھو جسے خداوند تمہاری آنکھوں کے سامنے کرے گا۔‘‘
(کتاب سموئیل باب: ۱۷۔۶)
حضرت سموئیلؑ نے اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا کی اور اسی وقت بارش ہونے لگی۔ لوگوں کے اندر اللہ اور اس کے نبی کی عظمت اور جلال ہیبت بن کر طاری ہو گیا۔ لوگوں نے حضرت سموئیلؑ سے کہا کہ ہمارے لئے اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں ہمارے گناہوں کے نتیجے میں ہلاکت میں مبتلا نہ کرے۔ حضرت سموئیلؑ نے فرمایا!
’’سموئیل نے لوگوں سے کہا، خوف نہ کرو۔ یہ سب شرارت تم نے کی ہے تو بھی خداوند کی پیروی سے کنارہ کشی نہ کرو بلکہ اپنے سارے دل سے خداوند کی پرستش کرو۔ تم کنارہ کشی نہ کرو ورنہ باطل چیزوں کی پیروی کرنے لگو گے جو نہ فائدہ پہنچا سکتی نہ رہائی دے سکتی ہے اس لئے کہ وہ سب باطل ہیں۔ کیونکہ خداوند اپنے بڑے نام کے باعث اپنے لوگوں کو چھوڑتا نہیں ہے اس لئے کہ خداوند کو یہی پسند آیا کہ تم کو اپنی قوم بنائے۔ اب رہا میں، سو خدا نہ کرے کہ تمہارے لئے دعا کرنے سے باز آ کر گنہگار بنوں بلکہ میں وہی راہ جو اچھی ہے اور سیدھی ہے تم کو بتاؤں گا۔ فقط اتنا ہے کہ تم خداوند سے ڈرو اور اپنے سارے دل اور سچائی سے اس کی عبادت کرو کیونکہ سوچو کہ اس نے تمہارے لئے کیسے بڑے کام کئے ہیں۔‘‘
(سموئیل باب ۱۲: ۲۵۔۲۰)
حضرت سموئیلؑ کا انتقال رامہؔ میں ہوا اور وہیں آپ کے جسم اطہر کو سپرد خاک کیا گیا۔ آپ نے طویل عمر پائی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔