Topics
قدیم زمانے کے
سامی اقوام خصوصاً لبنان کی فینقین قوم (Phoenican) کا سب سے بڑا دیوتا بعل بت تھا۔ اس کا قد
سو فٹ تھا جو پورے کا پورا سونے کا بنا ہوا تھا۔ بعل کے چار منہ تھے۔ اس قوی ہیکل
بت کی خدمت اور دیکھ بھال کے لئے چار سو خدام مامور تھے۔ اس بت کی عشتارات (Ashtoreth) نام کی ایک بیوی بھی
تھی۔
اخی اب نے
اسرائیل کے صدر مقام سامریہ میں بعل کا مندر اور مذبح تعمیر کیا۔ سامریہ شہر بعلبک
کے نام سے مشہور ہوا۔ جس کی وجہ تسمیہ یہی بات ہے۔ بک ’’بکہ‘‘ کا مخفف ہے جس کے
معنی شہر کے ہیں اور بعلبک کا مطلب ہے (سامی اور عبرانی زبانوں میں بعل کے معنی
مالک، سردار، حاکم اور رب کے آتے ہیں۔ اہل عرب شوہر کو بھی بعل کہتے ہیں) بعل
دیوتا کا شہر۔ بعل کی پرستش اور مشرکانہ عقائد کی طرف اخی اب کا رجحان دیکھ کر
اسرائیل کے شہروں میں اعلانیہ بعل کے نام پر قربانیاں کی جانے لگیں۔
بنی اسرائیل کی
روایتی گمراہی اور بے دینی عروج پر تھی۔
اس زمانے میں
اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور رہنمائی کے لئے حضرت الیاس علیہ السلام کو مبعوث کیا۔ آپ
جلعاد کے رہنے والے تھے۔ حضرت الیاس علیہ السلام حضرت ہارونؑ کی اولاد میں سے تھے۔
بائبل نے حضرت الیاس علیہ السلام کا تذکرہ ’’ایلیاہ‘‘ کے نام سے کیا ہے۔
حضرت الیاس علیہ
السلام نے بنی اسرائیل کو توحید کا درس دیا اور ان سے کہا کہ تم لوگ واحد اور یکتا
ذات ، قادر مطلق ہستی اللہ کو چھوڑ کر بعل کو پکارتے ہو۔ حالانکہ یہ نہ تو تمہاری
حاجت روائی کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کا فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ اس اللہ کی طرف
لوٹ آؤ جو کہ نہ صرف تمہارا اور تمہارے باپ دادوں کا رب ہے بلکہ آسمانوں اور زمین
اور ان کے درمیان جو کچھ بھی ہے ان کا خالق و مالک ہے۔
قوم گمراہی میں
اس قدر مبتلا ہو گئی تھی کہ اس نے حضرت الیاس علیہ السلام کی پرحکمت اور نور سے
منور دعوت توحید پر کان نہ دھرا اور بد ستور اپنی روش پر قائم رہی۔ آپؑ نے بادشاہ
وقت اخی اب کو دعوت دی اور احساس دلایا کہ وہ گناہوں سے باز آ جائے،
شرک و بت پرستی اور دیگر قبیح افعال سے توبہ کر لے اور اپنی رعایا کو بھی اس امر
سے باز رکھے کیونکہ پوری قوم کا گناہ اس کے سر پر ہے۔ اگر وہ باز نہ آیا تو اللہ
کے عتاب کا نشانہ بنے گا۔ پوری قوم خشک سالی کا شکار ہو جائے گی۔
لیکن اخی اب نے
آپ کے پند و نصائح کا ذرہ برابر اثر قبول نہیں کیا اور پیغام حق کو جھٹلاتا رہا۔
تین سال سے
زیادہ عرصہ تک اسرائیل میں بارش نہیں ہوئی۔ اتنا شدید قحط پڑا کہ لوگ ایک ایک دانہ
کو ترسنے لگے۔ خواتین، بچے، جوان اور بوڑھے سب بھوک سے نڈھال ہو گئے۔ اس اندوہناک
صورتحال سے بادشاہ سوچنے پر مجبور ہوا اور اخی اب نے حضرت الیاس علیہ السلام کو
تلاش کر کے بلوایا اپنے رویئے کی معافی مانگی اور بارش برسنے کے لئے دعا کی
درخواست کی۔ بادشاہ کے مصاحبوں اور بعل کے پجاریوں نے اسے اپنی شکست سمجھا اور
مخالفت پر آمادہ ہو گئے۔ اللہ کے فرستادہ نبی حضرت الیاس علیہ السلام نے تجویز پیش
کی کہ تم اپنے معبود بعل کے نام پر قربانی دو میں بھی اللہ رب العزت کے نام کی
قربانی دوں گا۔ جس کی قربانی قبول ہو گی۔ اسی معبود سے بارش کے لئے التجا کی جائے
گی۔ اس زمانے میں دستور یہ تھا کہ قربانی کا جانور ذبح کر کے ایک بلند مقام پر رکھ
دیا جاتا تھا۔
قربانی قبول
ہونے کی نشانی یہ تھی کہ غیب سے آگ نمودار ہو کر قربانی کے جانور کو جلا دیتی تھی۔
جس کی قربانی قبول نہ ہوتی وہ ویسے ہی پڑی رہتی۔ اس طریقہ کے مطابق تقریباً نو سو
(۹۰۰) افراد جو بعل دیوتا کے پجاری تھے۔ کوہ کرمل (Carmel) پر جمع ہوئے۔ ایک طرف
پیغمبر حق حضرت الیاس علیہ السلام اکیلے کھڑے تھے۔ دوسری طرف باطل کے پیروکاروں کا
جم غفیر تھا۔
جانور ذبح کر کے
پہاڑ کی چوٹی پر رکھ دیئے گئے۔ غیبی آگ نے حضرت الیاس علیہ السلام کی قربانی جلا
کر راکھ کر دیا۔
حضرت الیاس علیہ
السلام کی سچائی اور حقانیت اور خدائے واحد کی وحدانیت کی کھلی نشانی دیکھ کر
بادشاہ کے اوپر لرزہ طاری ہو گیا۔ اس نے حضرت الیاس علیہ السلام سے معافی مانگی
اور پجاریوں کے قتل کا حکم دے دیا۔ حضرت الیاس علیہ السلام نے خشوع و خضوع سے اللہ
کے حضور بارش کی دعا کی۔ دعا قبول ہوئی اور خوب بارش برسی۔ سارا ملک اتھل پتھل ہو
گیا اور خوش حالی لوٹ آئی۔
اخی اب کی بت
پرست ملکہ ایزابل نے جب یہ دیکھا کہ اس کے شوہر نے بعل کے پجاریوں کو قتل کروا دیا
ہے تو وہ حضرت الیاس علیہ السلام کی جان کی دشمن بن گئی۔ اس نے تہیہ کر لیا کہ
پجاریوں کے قتل کا بدلہ لے گی۔ ملکہ ایزابل نے کمال خباثت اور چالاکی سے سازش کی
اور اپنی کامیابی کے لئے ماحول سازگار کیا۔ اخی اب بھی بیوی کے بنے ہوئے جال میں
پھنس کر گمراہ ہو گیا۔ بت پرستی پر آمادہ قوم نے ملکہ ایزابل کا ساتھ دیا اور ایسے
حالات پیدا کر دیئے کہ حضرت الیاس علیہ السلام کا ملک میں رہنا مشکل ہو گیا۔ حضرت
الیاس علیہ السلام ملک چھوڑ کر کوہ سینا کے دامن میں پناہ گزین ہو گئے۔
حضرت الیاس علیہ
السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا!
’’بنی اسرائیل
نے تیرے عہد کو ترک کیا اور تیرے مذبحوں کو ڈھا دیا اور تیرے نبیوں کو تلوار سے
قتل کیا۔ اور ایک میں ہی اکیلا بچا ہوں وہ میری جان لینے کے درپے ہیں۔‘‘
(سلاطین ۱۹: ۱۰)
ملکہ ایزابل کی
بیٹی کی شادی بیت المقدس کی یہودی ریاست کے فرمانروا یہورام (Jehoram) سے ہوئی تو مشرکانہ
عقائد و روایات بیت المقدس میں بھی منتقل ہو گئے۔ حضرت الیاس علیہ السلام نے
یہورام کو خط لکھ کر تبلیغ کی کہ اپنے باپ دادوں کا راستہ نہ چھوڑے۔ اس کا انجام
ہلاکت اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
کتاب ۲۔ تاریخ
(۲: ۱۲۔۱۵) میں درج ہے:
’’سو دیکھ
خداوند تیرے لوگوں کو تیری بیویوں کو اور تیرے سارے مال کو بڑی آفتوں سے مارے گا۔
اور تو انتڑیوں کے شدید مرض میں مبتلا ہو جائے گا تیری انتڑیاں روز بروز گلتی چلی
جائیں گی۔‘‘
یہورام نے ہدایت
اور نصیحت پر کوئی توجہ نہ دی اور بدستور اپنی روش پر قائم رہا۔ آخر کار حضرت
الیاس علیہ السلام کا کہا پورا ہوا۔
یہورام کی ریاست بیرونی حملہ آوروں نے تاراج کر
دی۔ اس کی بیویوں کو قید کر کے لئے گئے اور وہ خود انتڑیوں کے مرض میں مبتلا ہو کر
مر گیا۔
حضرت الیاس علیہ
السلام صبر و استقامت کے ساتھ دین حق کی ترویج و اشاعت میں مصروف رہے۔ اسرائیل میں
ایزابل کا بیٹا اقتدار میں آیا تو اس نے اپنی ماں کے عقائد کو فروغ دیا۔ حضرت
الیاس علیہ السلام نے اسے بھی صراط مستقیم پر چلنے کی دعوت دی۔
لیکن یہ بھی آپ
کے درپے آزار ہو گیا۔
حضرت الیاس علیہ
السلام نے جب دیکھا کہ بنی اسرائیل کسی بھی صورت راہ راست پر آنے کے لئے تیار نہیں
ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حضور التجا کی کہ یہ تیرے بندے ہیں، سخت گمراہی میں پڑے
ہوئے، تیرے نبی کی بات نہیں مانتے، اب تیری مرضی ہے کہ تو انہیں ہدایت دے یا ان پر
عذاب نازل کر دے۔
اللہ تعالیٰ نے
بنی اسرائیل پر عذاب نازل کیا۔ ایزابیل کے خاندان کا ہر فرد ہلاک ہو گیا۔
توریت
کے مطابق اللہ تعالیٰ کے مطابق جب حضرت الیاس علیہ السلام کی قوم پر عذاب
نازل کیا جا رہا تھا تو انہیں آسمانوں پر اٹھا لیا گیا۔
قرآن حکیم میں
ہے:
’’پس جنہوں نے
الیاس کو جھٹلایا۔ اور وہ بلا شبہ لائے جائیں گے پکڑے ہوئے بجزان کے جو چن لئے گئے
ہیں۔ اور ہم نے بعد کے لوگوں میں الیاس کا ذکر باقی رکھا۔ الیاس پر سلام ہو۔
بلاشبہ ہم نیکو کاروں کو اسی ہی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں۔ بے شک وہ ہمارے مومن بندوں
میں سے ہیں۔‘‘
(سورۃ الصٰفٰت:
۱۲۷۔۱۳۲)
٭٭٭٭٭
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔