Topics
حضرت آدم ؑ کے قصے میں بے شمار حکمتیں موجود ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:
* حضرت آدم ؑ اور ان کی اولاد کا شرف اس علم اور ان صفات کی بناء پر ہے جو اللہ نے مٹی کے پتلے میں اپنی روح پھونکنے کے بعد اسے عطا کر دی ہیں۔
* انسان اگر اپنی حقیقت (روح) سے واقف ہے اور ان قاعدوں، ضابطوں اور فارمولوں سے واقف ہے جو کائنات کے پس پردہ کام کر رہے ہیں تو وہ مخلوق میں افضل ہے۔ بصورت دیگر اس کی حیثیت مٹی کے پتلے کی ہے جس کے اندر اپنی ذاتی کوئی حرکت نہیں ہے۔
* سہواً غلطی کرنے کے باوجود آدم ؑ نے عاجزی کا مظاہرہ کیا جسے اللہ نے پسند فرمایا اور معاف فرما دیا یعنی اللہ کو آدم کی عجز و انکساری پسند آئی۔ یہ عجز و انکساری کا ہی نتیجہ ہے کہ حضرت آدمؑ کی اولاد میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر پیدا ہوئے۔
* عجز کے مقابلے میں گستاخی یا بغاوت بڑی سے بڑی نیکی اور بھلائی کو کھا جاتی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کبر و نخوت اور گستاخی نے عزازیل کو راندہ درگاہ کر دیا۔
تکبر عزازیل راخوار کرد
بزندان لعنت گرفتار کرد
* اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت دے۔ عزت و شرف اور لعنت و رسوائی اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔
* آدم کی تخلیق قدرت کا ایک منفرد کرشمہ ہے۔ مٹی کے پتلے کو گوشت پوست کی صورت دے دی۔ مٹی کو گوشت پوست، ہڈی، خون، دل، پھیپھڑے، دماغ میں تبدیل کر دینا اللہ ہی کا کام ہے۔ اگر انسان اپنی مادی تخلیق پر غور کرے تو عقل حیران رہ جاتی ہے کہ یہ سارا جسمانی نظام بغیر کسی مادی کنکشن کے متحرک ہے اور کسی لمحے بھی یہ حرکت ساقط نہیں ہوتی اور اگر کسی وجہ سے اس نظام میں خلل واقع ہو جائے تو جدید ترین آلات کا نظام بھی جسم کے کل پرزوں کو اس طرح متحرک نہیں رکھ سکتا جس طرح قدرت حرکت میں رکھتی ہے۔ مثلاً ہمارے سارے جسم میں خون پہنچانے کے لئے ایک آلہ ہے جو ایک منٹ میں ستر بہتر بار سکڑتا اور پھیلتا ہے اور دل کی یہ خدمت ساری عمر جاری رہتی ہے اور کارکردگی میں اگر فرق آ جائے تو علاج پر لاکھوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔
گردن سے رانوں کے اوپر تک کا ہمارا جسم ایک صندوق کی طرح ہے۔ اس صندوق کی دیواروں(پسلیوں کے نیچے) پھیپھڑے ہیں۔ سانس کے اندر جانے اور باہر نکلنے کا دارومدار پھیپھڑوں کے سکڑنے اور پھیلنے پر ہے۔ آدمی ایک منٹ میں سولہ(۱۶) یا سترہ(۱۷) بار سانس لیتا ہے اور نکالتا ہے۔ انسان سانس اسی وقت لے سکتا ہے جب خلاء میں ہوا اور آکسیجن موجود ہو۔
* انسان کی بنیادی ضرورت میں پانی کو بڑا دخل ہے پانی نہ ہو تو ساری زمین بنجر ہو جائے گی۔ اللہ نے انسان کو اپنی طرف سے ہر چیز مفت عطا کی ہے، نہ کوئی فیس اور نہ کوئی بل آتا ہے۔
جن اسماء الٰہی کا علم آدم ؑ کو دیا گیا تھا۔ ان ہی اسماء کا علم، نیابت کی ودیعت ہے۔ ان ہی اسماء کے علم کو روحانیت کی زبان میں ’’علم لدنی‘‘ کہتے ہیں۔
وعلم آدم الاسماء کلھا
جب اللہ تعالیٰ نے علم کی تقسیم کی تو سب سے پہلے اپنی صفات کے ناموں کا تعارف کرایا۔ ان ہی ناموں کو اسمائے صفاتی کہا جاتا ہے۔
یہی نام وہ علم ہیں جو اللہ تعالیٰ کے علم کا عکس ہیں۔ صفت کی تعریف کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کے ساتھ قدرت اور رحمت کی صفات بھی جمع ہیں۔
مثلاً ربانیت کی صفت کے ساتھ قدرت اور رحمت بھی شریک ہیں۔ یا صمدیت کی صفت کے ساتھ قدرت اور رحمت شامل ہیں۔ اسی طرح احدیت کی صفت کے ساتھ قدرت اور رحمت کی صفت کا ہونا ضروری ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت قدرت اور رحمت کے بغیر نہیں ہے۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کو بصیر کہتے ہیں تو اس کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بصیر ہونے کی صفت میں قادر اور رحیم بھی ہے یعنی اسے بصیر ہونے میں کامل قدرت اور کامل خالقیت کی استطاعت حاصل ہے۔
اللہ تعالیٰ کا کوئی اسم دراصل ایک تجلی ہے۔ یہ تجلی اللہ تعالیٰ کی ایک خاص صفت کی حامل ہے۔ اور اس تجلی کے ساتھ صفت قدرت کی تجلی اور صفت رحمت کی تجلی بھی شامل ہے۔ اس طرح ہر صفت کی تجلی کے ساتھ دو تجلیاں اور ہیں۔ گویا ہر اسم تین تجلیوں کا مجموعہ ہے۔
۱۔ ایک تجلی صفت اسم کی۔
۲۔ دوسری تجلی صفت قدرت کی۔
۳۔ تیسری تجلی صفت رحمت کی۔
چنانچہ کسی تجلی کے نام کو اسم کہتے ہیں۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہر اسم مجموعی حیثیت میں دو صفات پر مشتمل ہے۔ ایک خود تجلی اور ایک تجلی کی صفت۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کا کوئی اسم ذہن میں پڑھتے ہیں یا زبان سے ادا کرتے ہیں تو ایک تجلی اپنی صفت کے ساتھ حرکت میں آ جاتی ہے۔ اس حرکت کو ہم علم کہتے ہیں۔ جو فی الحقیقت اللہ تعالیٰ کے علم کا عکس ہے۔
عام حالات میں ہماری نظر اس طرف کبھی نہیں جاتی کہ موجودات کے تمام اجسام اور افراد میں ایک مخفی رشتہ ہے۔ اس رشتہ کی تلاش سوائے اہل روحانیت کے اور کسی قسم کے اہل علم اور اہل فن نہیں کر سکتے۔ حالانکہ اسی رشتے پر کائنات کی زندگی کا انحصار ہے۔ یہی رشتہ تمام آسمانی اجرام اور اجرام کے بسنے والے ذی روح اور غیر ذی روح افراد میں ایک دوسرے کے تعارف کا باعث ہے۔
ہماری نگاہ جب کسی ستارے پر پڑتی ہے تو ہم اپنی نگاہ کے ذریعے ستارے کے بشریٰ کو محسوس کرتے ہیں۔ ستارے کا بشریٰ کبھی ہماری نگاہ کو اپنے نظارے سے نہیں روکتا۔ وہ کبھی نہیں کہتا کہ مجھے نہ دیکھو۔ اگر کوئی مخفی رشتہ موجود نہ ہوتا تو ہر ستارہ اور ہر آسمانی نظارہ ہماری زندگی کو قبول کرنے میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ ضرور پیدا کرتا۔ یہی مخفی رشتہ کائنات کے پورے افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کئے ہوئے ہے۔
یہاں اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ تمام کائنات ایک ہی ہستی کی ملکیت ہے۔ اگر کائنات کے مختلف اجسام، مختلف ہستیوں کی ملکیت ہوتے تو یقیناً ایک دوسرے کی روشناسی میں تصادم پیدا ہو جاتا۔ ایک ہستی کی ملکیت دوسری ہستی کی ملکیت سے متعارف ہونا ہرگز پسند نہ کرتی۔ قرآن پاک نے اسی مالک ہستی کا تعارف لفظ ’’اللہ‘‘ سے کرایا ہے۔ اسمائے مقدسہ میں یہی لفظ ’’اللہ‘‘ اسم ذات ہے۔
اسم ذات مالکانہ حقوق رکھنے والی ہستی کا نام ہے اور اسم صفات قادرانہ صفت رکھتا ہے۔ اسم ذات مالکانہ یعنی خالقیت کے حقوق کا حامل ہے۔ اس کو تصوف کی زبان میں ’’رحمت‘‘ کہتے ہیں۔ چنانچہ ہر صفت کے ساتھ اللہ کا قادرانہ اور رحیمانہ وصف لازم آتا ہے۔ یہی دو اوصاف ہیں جو موجودات کے تمام افراد کے درمیان مخفی رشتے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسمائے الٰہیہ کا یہ ہی وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو سکھایا ہے۔
(لوح و قلم)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے! ’’میں تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق ہوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ بحیثیت خالق کے ایسے خالق ہیں جن کی تخلیق میں وسائل کی پابندی زیر بحث نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ کے ارادے میں جو چیز جس طرح اور جن خدوخال میں موجود ہے جب وہ اس چیز کو وجود بخشنے کا ارادہ کرتے ہیں تو حکم دیتے ہیں اور اس حکم کی تعمیل کے لئے تخلیق کے لئے جتنے وسائل ضروری ہیں وہ سب وجود میں آ کر اس تخلیق کو عمل میں لے آتے ہیں۔
ذیلی تخلیقات:
’’خالقین‘‘ کا لفظ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور بھی تخلیق کرنے والے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے علاوہ دوسری ہر تخلیق وسائل کی پابند اور محتاج ہے۔ اس کی مثال آج کے دور میں بجلی سے دی جا سکتی ہے۔ جب بندوں نے بجلی سے دوسری ذیلی تخلیقات کو وجود میں لانا چاہا تو لاکھوں چیزیں وجود میں آ گئیں۔
اللہ تعالیٰ کا یہ وصف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک لفظ ’’کن‘‘ کہہ کر بجلی کو وجود بخش دیا۔ آدم نے اختیاری طور پر جب بجلی کے علم کے اندر تفکر کیا تو اس بجلی سے ہزاروں لاکھوں چیزیں وجود میں آ گئیں۔
بجلی سے جو چیزیں وجود میں آئیں وہ انسان کی تخلیق ہیں مثلاً ریڈیو، ٹی وی، ٹیلی فون، لاسلکی نظام، کمپیوٹر، مواصلاتی سیارے اور بے شمار دوسری چیزیں۔
روحانی نقطۂ نظر سے اللہ کی اس تخلیق میں سے دوسری ذیلی تخلیقات کا مظہر بننا دراصل آدم زاد کا بجلی کے اندر تصرف ہے۔ یہ وہی علم ہے جو اللہ تعالیٰ نےحضرت آدمؑ کو سکھا دیا تھا۔ علم الاسماء سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو ایک ایسا علم سکھا دیا جو براہ راست تخلیقی فارمولوں سے مرکب ہے۔ جب انسان اس علم کو گہرائی کے اندر جا کر حاصل کرتا ہے اور اس علم کے ذریعے تصرف کرتا ہے تو نئی نئی چیزیں وجود میں آ جاتی ہیں۔
کائنات دراصل علم ہے۔ ایسا علم جس کی بنیاد اور حقیقت سے اللہ تعالیٰ نے بندوں کو واقف کر دیا ہے لیکن اس وقوف کو حاصل کرنے کے لئے ضروری قرار دے دیا گیا ہے کہ بندے علم کے اندر تفکر کریں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ ہم نے لوہا نازل کیا اور اس کے اندر لوگوں کے لئے بے شمار فائدے محفوظ کر دیئے ہیں۔
جن لوگوں نے لوہے (بمعنی دھات) کی حیثیت اور طاقت کو تسلیم کر کے لوہے کے اندر گہرائی میں تفکر کیا تو لوہے کی لامحدود صلاحیتیں سامنے آ گئیں۔ اور جب ان صلاحیتوں کو استعمال کر کے لوہے کے اجزائے ترکیبی کو متحرک کر دیا تو لوہا ایک ایسی عظیم شئے بن کر سامنے آیا جس سے موجودہ سائنس کی ہر ترقی کسی نہ کسی طرح وابستہ ہے۔ یہ ایک تصرف جو وسائل میں کیا جاتا ہے یعنی ان وسائل میں جن وسائل کا ظاہر وجود ہمارے سامنے ہے۔
جس طرح لوہا ایک وجود ہے اسی طرح روشنی بھی ایک وجود ہے۔ وسائل کی حدود سے گزر کر یا وسائل کے علوم سے آگے بڑھ کر جب کوئی بندہ روشنیوں کا علم حاصل کر لیتا ہے تو بہت ساری تخلیقات وجود میں لا سکتا ہے۔ وسائل میں محدود رہ کر ہم سونے کے ذرات کو اکٹھا کر کے ایک خاص پروسیس(Process) سے گزار کر سونا بناتے ہیں۔ لوہے کے ذرات اکٹھا کر کے خاص پروسیس(Process) سے گزار کر ہم لوہا بناتے ہیں۔ لیکن وہ بندہ جو روشنیوں میں تصرف کرنے کا اختیار رکھتا ہے اس کے لئے سونے کے ذرات کو مخصوص پروسیس سے گزارنا ضروری نہیں ہے۔ وہ اپنے ذہن میں روشنیوں کا ذخیرہ کر کے ان مقداروں کو الگ کر لیتا ہے جو مقداریں سونے کے اندر کام کرتی ہیں اور ان مقداروں کو ایک نقطہ پر مرکوز کر کے ارادہ کرتا ہے۔ سونا ہو جا اور سونا بن جاتا ہے۔
ہم بتا چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی تخلیق میں کسی کے محتاج نہیں ہیں۔ جب وہ کوئی چیز تخلیق کرتے ہیں تو تخلیق کے لئے جتنے وسائل موجود ہونا ضروری ہیں وہ خود بخود موجود ہو جاتے ہیں۔ بندے کا تصرف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی تخلیق میں تصرف کرتا ہے۔
اس تصرف کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ وسائل میں محدود رہ کر وسائل کو مجتمع کر کے کوئی نئی چیز بنانا ہے اور دوسرا طریقہ روشنیوں میں تصرف کرنا ہے۔ یعنی کوئی چیز جن روشنیوں پر قائم ہے ان روشنیوں کو متحرک کر کے کسی چیز کو تخلیق کرنا۔ روحانی دنیا میں ان روشنیوں کا نام ’’نسمہ‘‘ ہے اور سائنسی دنیا ان روشنیوں کے عکس کو اورا (Aura) کہتی ہے۔
انسان اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی تخلیق ہے جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تصرف کرنے کی قدرت رکھتی ہے اور یہ علم اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے منتقل ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ یہ بات جانتے ہیں کہ انسان سے ذیلی تخلیقات وجود میں آتی رہیں گی اس لئے اللہ تعالیٰ نے خود کو ’’احسن الخالقین‘‘ فرمایا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔