Topics

تابوت سکینہ

تابوت سکینہ (جسے بنی اسرائیل عہد کا صندوق کہتے ہیں) میں توراۃ کا اصل نسخہ محفوظ ہے۔ جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خود لکھوایا تھا۔ اس کے علاوہ اس میں پتھر کی وہ تختیاں بھی تھیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو طور سینا میں عطا کی تھیں۔ 

تبرکات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا، حضرت ہارون علیہ السلام کا پیرہن اور آسمانی غذا’’من‘‘ محفوظ تھی۔

عہد کا صندوق اشدود لے گئے۔ اشدودی قوم نے صندوق کو اپنے سب سے بڑے بت ’’وجون‘‘ کے مندر میں رکھ دیا۔ جب لوگ صبح عبادت کے لئے جمع ہوئے تو دیکھا کہ ’’وجون‘‘ دیوتا منہ کے بل زمین پر اوندھا پڑا ہے۔ یہ واقعہ روزانہ پیش آنے لگا۔ 

ایک دن پجاریوں نے دیکھا کہ دیوتا کا سر نہیں ہے اور اس کی انگلیاں کٹ کر گر گئیں ہیں ۔ لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ کچھ دنوں بعد شہر میں طاعون کی وباء پھیل گئی اور لوگ ہلاک ہونے لگے۔ پنڈت صلاح مشورے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ صندوق کو ’’وجون دیوتا‘‘ کے مندر سے ’’جات‘‘ شہر بھیج دیا جائے۔ وہاں بھی صندوق کے اثرات برقرار رہے۔ جات سے صندوق کو عقرون شہر منتقل کر دیا گیا۔ طاعون وہاں بھی پہنچ گیا۔ ہزاروں افراد مر گئے۔ مذہبی پیشوا جمع ہوئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ صندوق بنی اسرائیل کو واپس کر دینا چاہئے۔

صندوق کو بیل گاڑی میں رکھ کر بیلوں کو بنی اسرائیل کی طرف ہانک دیا۔ گاڑی حضرت یوشع علیہ السلام کے کھیت میں آ کر کھڑی ہو گئی۔ سات ماہ دشمنوں کے قبضے میں رہنے کے بعد ’’عہد کا صندوق‘‘ بنی اسرائیل کو واپس مل گیا۔

فلسطین کی اشدودی قوم اور عمالقہ نے بنی اسرائیل کو پھر ایک بار تاراج کرنے کی تیاری کی۔ حضرت طالوت علیہ السلام اس حملے کو ناکام بنانے کے لئے اپنی فوجیں لے کر آگے بڑھے۔

بنی اسرائیل طالوت علیہ السلام کو بادشاہ تسلیم کر کے جہاد کے لئے تیار ہو گئے اور ستر یا اسی ہزار افراد کا لشکر جنگ کے لئے روانہ ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت طالوت علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنے ہمراہیوں کے ایمان کی پختگی اور اولوالعزمی کی آزمائش کریں۔

حضرت طالوتؑ نے فوج کو ہدایت کی کہ راستے میں موجود دریا پار کرتے ہوئے کوئی شخص چلو بھر پانی سے زیادہ نہیں پئے۔ شدید تشنگی کے عالم میں بہت کم لوگوں نے اطاعت گزاری کی اور حکم کے مطابق چند گھونٹ پانی پیا۔ زیادہ تر لوگ نافرمانی کے مرتکب ہوئے۔ جن لوگوں نے پانی خوب پیا تھا ان کے ہونٹ سیاہ ہو گئے۔ پیاس اور زیادہ بڑھ گئی جس کی وجہ سے ان کی حالت غیر ہو گئی۔ 

مختصر فوج دریا پار جمع ہوئی۔ جنگی تیاری اور حربی سامان دیکھا تو بنی اسرائیل نے تھکاوٹ کا عذر پیش کر کے جہاد سے انکار کر دیا۔ 

حضرت طالوت علیہ السلام نے لشکر کی ہمت بندھائی اور انہیں آلات حرب اور ساز و سامان کی تعداد کے بجائے اللہ کی قدرت و قوت اور حاکمیت پر یقین رکھنے کی تلقین کی۔

’’پھر جب طالوت اپنی فوجوں کو لے کر نکلا تو اس نے کہا یقیناً ایک نہر کے ذریعے اللہ تعالیٰ تمہارا امتحان لینے والا ہے۔ جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا وہ میرا نہیں اور جو نہ پیئے گا وہ میرا ہے۔ ہاں اگر کوئی چلو بھر پانی پی لے (تو مضائقہ نہیں) پھر چند ایک کے سوا سب نے پانی پی لیا پھر جب طالوت اور مومن لوگ جو اس کے ساتھ تھے نہر کے پار ہو گئے تو طالوت سے کہنے لگے کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکر کے ساتھ مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے اور جو لوگ یقین رکھتے تھے کہ ان کو خدا کے روبرو حاضر ہونا ہے، کہنے لگے کہ بہت سی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آ چکی ہیں۔ اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘

(سورۃ البقرہ۔ ۲۴۹)

حضرت طالوتؑ نے بارگاہ الٰہی میں دعا کی:

’’اے رب ہمارے! ہم پر صبر (قوت برداشت) نازل کر اور ہمیں ثابت قدمی عطا کر اور مدد کر ہماری اس کافر قوم پر۔‘‘

(سورۃ البقرہ۔ ۲۵۰)

جالوت

دشمن فوج کا سپہ سالار جالوت نہایت قد آور مضبوط ڈیل ڈول کا آدمی تھا۔ جالوت جاہ و جلال کے ساتھ فوج میں سے نکل کر میدان میں آیا اور مبارزت طلب کی۔ اس کے قد و قامت اور جاہ و حشمت سے بنی اسرائیل متاثر ہو گئے۔ مقابلے کے لئے کوئی میدان میں نہ اترا۔ یہ حالت دیکھ کر حضرت طالوتؑ کی فوج میں شامل حضرت داؤدؑ جو ابھی کم عمرنوجوان تھے، مقابلے کے لئے آگے بڑھے اور جالوت کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ دشمن کے حوصلے پست ہو گئے اور بنی اسرائیل کو اللہ نے فتح سے نوازا۔

’’پھر شکست دی ان کو اللہ کے حکم سے اور مارا داؤد نے جالوت کو اور دی اللہ نے اس کو سلطنت اور تدبیر اور سکھایا اس کو جو چاہا۔‘‘

(سورۃ البقرہ۔ ۲۵۱)

حضرت طالوت علیہ السلام کے دور میں بنی اسرائیل نے متعدد فتوحات حاصل کیں اور ایک عظیم اسرائیلی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ حضرت طالوتؑ ایک عرصے تک فرمانروا اور پیشوا کی حیثیت سے بنی اسرائیل کی معاشرتی، تہذیبی، تمدنی اور مذہبی اصلاح کرتے رہے اور تعلیمات موسوی کی تبلیغ، ترویج اور شریعت موسوی کے نفاذ کے لئے کوشاں رہے۔

تابوت سکینہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے چھوڑے ہوئے تبرکات تھے جو اشدودی قوم لے گئی تھی۔ 

اللہ تعالیٰ نے عہد کا یہ صندوق بنی اسرائیل کو واپس دلانے کیلئے یہ تدبیر کی کہ ان کے سب سے بڑے بت کا سر ٹوٹ کر علیحدہ ہو گیا اور اس کی انگلیاں کٹ کر گر گئیں۔ علاقہ میں طاعون پھیل گیا۔ بالآخر اشدودی قوم نے تابوت سکینہ بنی اسرائیل کو واپس کر دیا۔ 

طاعون کیا ہے؟

طاعون ایک بیماری ہے جو بیکٹیریا Yersinia pestisکی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ جراثیم چوہوں میں پایا جاتا ہے۔ ان چوہوں کے جسموں پر رہنے والی جوئیں اس کا باعث بنتی ہیں۔ جو انسان کو کاٹتی ہیں تو انسانی جسم میں جراثیم داخل ہو جاتے ہیں۔ چوہوں کا فضلہ، تھوک وغیرہ کے جراثیم انسانی غذا میں شامل ہونے یا زخم کے ذریعے خون میں شامل ہونے سے بھی یہ مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ طاعون میں شدید بخار، سر میں درد، جسم میں اور جوڑوں میں شدید درد ہوتا ہے، دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔

طاعون پورے جسم میں تیزی سے پھیلتا ہے۔ گلے، بغل اور چڈوں کے غدود گچھوں کی صورت میں ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ غدود بھرے ان گچھوں میں مواد پڑ جاتا ہے اور یہ پھوڑے کی طرح پھٹ جاتے ہیں۔ بلغم، معدے، آنتوں اور پیشاب میں خون آنے لگتا ہے۔ گردن توڑ بخار ہو جاتا ہے اور بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے اور آدمی مر جاتا ہے۔

طاعون میں نمونیا ہو جاتا ہے۔ ہاتھ، پاؤں، ہونٹ اور چہرہ نیلا پڑ جاتا ہے۔ سانس میں شدید گھٹن اور تکلیف ہوتی ہے۔ وریدوں اور شریانوں سے خون رسنے لگتا ہے اور مریض دو یا پانچ دن میں مر جاتا ہے۔

کالے طاعون سے جلد پر سیاہ ابھرے ہوئے دھبے پڑ جاتے ہیں۔ پھر ان میں مواد پڑ جاتا ہے۔ اس جگہ کی جلد مردہ ہو کر جھڑ جاتی ہے۔

حضرت طالوت علیہ السلام کے قصے میں جن باتوں کا بطور خاص ذکر ہوا ہے وہ یہ ہیں۔ صندوق جس میں موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کی نشانیاں ہیں فرشتے تم تک پہنچا دینگے۔

اشدودی قوم نے صندوق اپنے مندر میں رکھ دیا۔ رات کو وجون، دیوتا منہ کے بل گر گیا۔ انہوں نے بت کو پھر کھڑا کر دیا۔ وجون دیوتا کا سر گردن سے الگ ہو گیا اور اس کی انگلیاں کٹ کر گر گئیں۔ شہر میں طاعون کی بیماری پھیل گئی۔

حضرت طالوت علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے کہا! مختصر اور چھوٹی جماعت ہونے کی وجہ سے خوف نہ کرو۔ اللہ نے بہت چھوٹی جماعتوں کو بڑی بڑی فوج پر فتح عطا کی ہے۔

حضرت طالوت علیہ السلام نے جو غریب خاندان کے فرد تھے اپنی تدبیر اور علم و حکمت اور اللہ کے فضل سے عظیم اسرائیلی سلطنت کی بنیاد رکھی اور طویل عرصے تک حکومت کی۔

٭٭٭٭٭


Topics


Mohammad Rasool Allah (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔