Topics
مینار نما مخروطی عمارت جو اہرام کے نام سے یاد کی جاتی ہے کس زبان کا لفظ ہے کوئی نہیں جانتا۔ انگریزی زبان میں اسے Pyramidکہا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں علم نہیں کہ یہ اہرام کتنے پرانے ہیں۔ تاریخ دان یہ بھی بتانے سے قاصر ہیں کہ یہ اہرام کن لوگوں نے بنائے، کیوں بنائے اور کس مقصد کے لئے بنائے گئے ہیں۔۔۔!!
پیرامڈ دراصل قدیم تہذیب کی تعمیرات ہیں جو مصر کے علاوہ میکسیکو، امریکہ، پیرو، گوئٹے مالا اور ہمالیہ سمیت دنیا کے کئی تاریخی مقامات پر ایستادہ ہیں۔ مصر کی وادی نیل میں قدیم مقام غزہ(Giza) کے میدان میں سب سے بڑا اہرام دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک ہے جو ’’شی اوپس یا چیوپس کا عظیم اہرام۔۔۔(The Great Pyramid of Cheops) کہلاتا ہے۔
یہ دنیا کا واحد عجوبہ ہے جو ہزاروں سال گزر جانے کے باوجود صحیح حالت میں موجود ہے جبکہ باقی چھ عجائبات کے صرف نام اور تصویری خاکے رہ گئے ہیں۔ ان کے نشانات تک زمانے کی دستبرد کی نذر ہو چکے ہیں۔ اہراموں کی جیومیٹریکل شکل کچھ اس نوعیت کی ہے کہ زلزلے، طوفان، بادوباراں اور دیگر حوادث کو یہ برداشت کر لیتے ہیں۔ ان کی ڈھلوان سطح زمین کی کشش ثقل سے آزاد ہے۔
سائنسدانوں نے حال ہی میں جدید کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے ’’شی اوپس‘‘ کا مطالعہ کیا۔ تازہ ترین معلومات یہ ہیں کہ یہ اہرام قدیم اور انتہائی ترقی یافتہ سائنسی ایجادات کا مظہر ہے اور یہ ترقی یافتہ سائنس حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش سے ہزاروں سال پہلے کی ہے۔
اہراموں کے معمار ماورائی سربستہ رازوں سے واقف تھے وہ اعلیٰ ترین ریاضی (Advance Mathematics) کا ادراک رکھتے تھے۔ علم مثلث (Trigonometry) اور جیومیٹری کے علوم پر انہیں دسترس تھی۔ جغرافیہ کے بارے میں ان کا علم حیرت انگیز تھا۔
شی اوپس پتھر کے دو سو ایک ۔۔۔ایک کے بعد دوسرے بلند ہوتے ہوئے متوازی زینوں پر مشتمل چالیس منزلہ (485فٹ) بلند عمارت ہے۔ اس کی چورس بنیاد (Base) سوا تیرہ (13-1/4) ایکڑ رقبہ پر محیط ہے۔ اس کے چاروں بنیادی سمتوں میں سے ہر ایک کی لمبائی 760فٹ اور 11انچ ہے۔ یعنی اہرام کے گرد چکر لگایا جائے تو تقریباً دو یا تین میل کا فاصلہ طے ہو گا۔ اس کی بنیاد ایک مکمل مربع ہے اور اس کے چاروں اطراف مساوی مثلثوں پر قائم ہیں۔ جو بنیاد سے اوپر اور اندر کی طرف اٹھی ہوئی ہیں۔
اس کے اطراف کی ڈھلان ۱۰ سے ۹ کے تناسب سے ۵ ڈگری 51/144.3پر رکھی ہوئی ہیں جو بلندی پر جا کر ایک ایسے نقطے پر ملتی ہیں جو بنیاد کے عین مرکز کی سیدھ میں ہے۔ ایک قابل ذکر پہلو اس عظیم عمارت کی بنیاد کے سوراخوں (Sockets) کا سلسلہ ہے جو بنیاد کی چٹان میں اطراف کے بنیادی پتھروں کو تھامے ہوئے ہیں۔ ان ساکٹوں کی مدد سے اصل ساخت کا ٹھیک ٹھیک محیط معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اہرام کا سب سے قابل توجہ امتیاز اس کی حیرت انگیز سمت بندی (Orientation) ہے یعنی اس کی بنیاد کو ٹھیک شمالاً جنوباً اور شرقاً غرباً اس طرح رکھا گیا ہے کہ پانچ سینٹی میٹر کی غلطی بھی دریافت نہیں کی جا سکی۔
شی اوپس میں (۹۰) نوے ملین (۹کروڑ) مکعب فٹ پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ تعمیر میں استعمال ہونے والے کل پتھروں کا اندازہ تئیس لاکھ (23,00000) کے قریب لگایا گیا ہے۔ ان میں ہر سل(Block) کا وزن ۲ سے ۳ میٹرک ٹن تک ہے (ایک ٹن میں ۱۰۰۰ کلو گرام ہوتے ہیں)۔ چند ایک بلاکوں کا وزن کا اندازہ ۹۰ سے ۶۰۰ ٹن لگایا گیا ہے۔ اہرام کے مجموعی وزن کا تخمینہ پینسٹھ لاکھ (65,00000) ٹن ہے۔ موجودہ زمانے میں سائنس کی بے انتہا ترقی کے باوجود بڑی سے بڑی کرین زیادہ سے زیادہ ۲۰ ٹن وزن اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور یہ صلاحیت ان کرینوں کی ہے جو بڑی بڑی بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر میں استعمال ہوتی ہیں اور تقریباً ۲۶۵ فٹ بلند ہوتی ہیں۔
تحقیقاتی ٹیم
نپولین جب مصر آیا تو اس نے تخمینہ لگوایا کہ اس اہرام میں اس قدر پتھر استعمال ہوئے ہیں کہ ان سے پورے فرانس کے گرد دس فٹ اونچی اور ایک فٹ موٹی دیوار تعمیر کی جا سکتی ہے اور اگر ان پتھروں کو ایک فٹ کی سلوں میں کاٹ لیا جائے تو یہ چھوٹے بلاک پوری دنیا کے گرد ایک زنجیر بنانے کے لئے کافی ہونگے۔
اہرام کی تعمیر میں استعمال ہونے والے ان وزنی پتھروں کو موجودہ سائنسی زمانے میں دیکھا جا سکتا ہے پہلے یہ ممکن نہیں تھا کیونکہ اہرام کے معماروں نے پتھروں سے بنی ہوئی ان عظیم الشان عمارت کو چاروں طرف سے بہترین پالش شدہ چونے کے پتھروں (Lime Stone) سے ڈھانپ دیا تھا۔ یہ غلافی سلیب اس مہارت اور نفاست سے آپس میں جڑی ہوئی تھیں کہ بال برابر جوڑ تلاش کرنے کے لئے بھی بہت باریک بینی سے کام لینا پڑتا تھا۔ اور اس قدر ہموار تھیں کہ 0.0008%اونچ نیچ کی گنجائش نہیں تھی۔ لائم اسٹون کی یہ سلیں اولاً ۸۲۰ عیسوی میں توڑی گئیں۔ جب خلیفہ عبدالرحمان المامون کی تحقیقاتی ٹیم نے اہرام کی شمالی ڈھلان میں سو فٹ لمبا چوڑا شگاف ڈال کر اندر اترنے کا راستہ دریافت کیا تھا۔ اس کے بعد ۱۳۵۰ء میں المامون کے ایک عرب جانشین نے روغن سے مزین اہرام کے ان غلافی پتھروں کو قاہرہ میں تعمیر کی جانے والی مسجد سلطان حسن کی تعمیر میں استعمال کیا۔
رہی سہی کسر قدیم جرمن غارت گر تہذیب ونڈال نے پوری کر دی۔ جس نے اہرام کی بیرونی سطح مکمل طور پر تباہ کر دی۔
اہرام کے محققین نے اہراموں کی تعمیر سے متعلق ریاضی و جیومیٹری کے رموز و قوانین کی جلدوں کے ڈھیر لگا دیئے ہیں جن میں ہمارے سیارے کا محیط، رات دن اور سال کے وقفوں کی پیمائش، سورج اور زمین کا درمیانی فاصلہ، روشنی کی رفتار، زمین کی کثافت، کشش ثقل اور اسراع(کسی جسم کی Velocityکے تبدیل ہونے کی شرح کو اسراع کہتے ہیں) کے قوانین وغیرہ شامل ہیں۔
۱۸۶۴ء میں اسکاٹ لینڈ کے پیازی اسمتھ نے اہرام کی پیمائش سے پتا چلایا کہ یہ اہرام اپنی چوڑائی کے ہر نو یونٹ کے مقابلہ میں دس یونٹ بلند ہے۔ اسمتھ نے اس بلندی کو ۱۰۹ سے ضرب دیا تو حاصل ضرب نو کروڑ اٹھارہ لاکھ چالیس ہزار آیا جو سورج کے گرد زمین کے مدار کا میلوں میں فاصلہ ہے۔
ماہرین اہرام نے اہرام کے اندر سے ملنے والے ۵ x ۵ انچ کے پتھر جسے The Bossکا نام دیا گیا ہے اور جو مشابہت میں گھوڑے کی نعل کی مانند ہے، کو اہرام کی تعمیر میں پیمائش کے لئے استعمال ہونے والی بنیادی اکائی قرار دیا ہے۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ یہ نعل قدیم کیوبٹ یعنی ایک ذراع(انسانی ہاتھ کی درمیانی انگلی سے کہنی تک لمبائی کو ذراع کہا جاتا ہے) کی علامت ہے۔
The Bossایک پیرامڈ انچ موٹی ہے(پیرامڈ معیاری برطانوی انچ سے ذرا سا بڑا ہے)۔ پیرامڈ انچ پیازی اسمتھ کی دریافت ہے جس کا کہنا ہے کہ یہ پیمائش کی صحیح اور مکمل ترین اکائی ہے جس کی بنیاد زمین کے گردشی محور پر رکھی گئی ہے۔ پیرامڈ انچ کرہ ارض کے قطبی محور کی گردش کا ایک حصہ ہے۔ Earth's polar axis of Rotationوہ خط مستقیم ہے جو زمین کے ایک قطب سے دوسرے قطب تک چلا گیا ہے۔
ماہرین اس حقیقت کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ میٹرک نظام پیمائش (Matric System of Measurement) میں خامی ہے کیونکہ میٹر اس خط نصف النہار(Meridian Line) کا حصہ ہے جو پیرس پر سے گزرتا ہے اور اس گول دائرے نے کرہ زمین کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق ایک قوس کے مقابلے میں خط مستقیم زیادہ درست اور Reliableہے۔
پیازی اسمتھ کے مطابق شی اوپس کی بنیاد کی چاروں سمتوں میں سے ہر ایک 9121.05 اہرامی انچ لمبی ہے اس بنیادی لمبائی کو کیوبٹ سائز کے عدد 25سے تقسیم کیا گیا تو جواب 365.242242آیا۔ جو کہ شمسی سال کی طوالت (۳۶۵ دن ۵ گھنٹے ۴۸ منٹ اور ۷ء۴۹ سیکنڈ یا اعشاری صورت میں ۲۴۲۲۴۲ء۳۶۵) کے برابر ہے۔ اس اہرام کی بلندی 5813.01اہرامی انچ بنتا ہے۔جس کادو سےحاصل ضرب 11696.00 اہرمی انچ بنتا ہے اس عدد کو سورج اور زمین کے درمیانی فاصلہ (9.1837,484 میل) سے تقسیم کیا جائے تو ایک 7909.7اہرامی انچ کا عدد حاصل ہوتاہے جو کہ میلوں میں زمین کا قطبی قطر ہے۔ یہ ان لاشمار ریاضیاتی پیمائشوں میں سے چند ایک ہیں جو ماہرین اہرامیات نے شی اوپس کے چپے چپے کی پیمائش کے بعد پیش کی ہیں۔
مخصوص بناوٹ اور زاویہ
مستعمل ریاضی کی جمع تفریق اور ضرب تقسیم سے کائناتی حقائق تک رسائی کے علاوہ اس عمارت کے طول و عرض اور زاویں کی ٹھیک ٹھاک جیومیٹریکل پیمائش میں بھی حیرت انگیز اسرار پوشیدہ ہیں۔ ماہرین فن تعمیر بتاتے ہیں کہ اہرام سے زیادہ مضبوط کوئی اور جیومیٹریکل شکل نہیں ہے۔ اہرام کی ساری پراسراریت اس کی مخصوص بناوٹ اور زاویہ میں ہے۔ جس کے اثرات اس میں موجود اشیاء کا پانی خشک کر کے انہیں گلنے سڑنے سے محفوظ کر دیتے ہیں۔ تجربات سے ثابت کیا جا چکا ہے کہ کھانے کی اشیاء اہرام میں سڑنے کے بجائے ٹھوس اور حجم میں کم ہو جاتی ہیں اور ان کا ذائقہ بڑھ جاتا ہے۔ خشک اجناس (گیہوں، چاول، جو، باجرہ وغیرہ) کیڑا لگنے سے محفوظ رہتے ہیں۔ پھلوں اور سبزیوں کے بیج اہرام میں رکھنے سے ان سے صحت مند اور زیادہ پھل پھول والے درخت اور فصلیں پیدا ہوتی ہیں۔ پھلدار اور پھولدار پودوں کی قلمیں پانی میں ڈبو کر اہرام کے اندر رکھی جائیں تو ان میں جڑیں جلدی نمودار ہو جاتی ہیں۔
تازہ دودھ کو تین سے چار ہفتے اہرام کے اندر رکھا جائے تو بہترین قسم کا پنیر حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح تمباکو کو دو ہفتہ اہرام میں رکھ کر اس کی کڑواہٹ ختم کی جا سکتی ہے۔ اہرام کے اندر دو ہفتے رکھا ہوا پانی پودوں میں ڈالنے سے ان کی نشوونما اور جسامت میں قابل ذکر اضافہ ہوتا ہے جبکہ اس پانی سے منہ دھونے سے چہرہ پر رونق اور سرخی آ جاتی ہے، جلد نرم ملائم اور خوبصورت ہو کر جھریوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اگر اسی پانی سے سر دھویا جائے تو بال گرنا بند ہو جاتے ہیں اور ان کی افزائش میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح دواؤں کو کچھ عرصہ اہرام میں رکھا جائے تو ان کی تاثیر اور قوت شفاء بڑھ جاتی ہے۔ اگر زخموں اور چوٹوں کو اہرام کے زیر اثر لایا جائے تو بہت جلد ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔