Topics

۔کمزور بچہ ۔ شفا دینا اللہ کا کام ہے


سوال: میرے بچے کی پیدائش قطر میں ہوئی۔ سات دن کے بعد بال اتروا کر بچہ کو اس کی ماں کے ساتھ پاکستان بھجوا دیا۔ تقریباً ساڑھے تین ماہ بعد بچہ واپس قطر لوٹا ۔ جب پانچ ماہ کی عمر تک بچے نے اپنی گردن نہ سنبھالی تو ہمیں فکر لاحق ہوئی۔ اس دوران بچہ اگرچہ اپنے ہاتھ پاؤں کبھ کبھی اکڑا لیتا تھا۔ ایک دن بچہ تما م دن آنسوؤں کے ساتھ روتا رہا تو ہم پریشان ہو گئے۔ دوسرے دن بچہ کو ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹروں نے معائنہ کرنے کے بعد بچے کو ہسپتال میں داخل کرلیا۔ اور بیماری کو بچوں کی مرگی کا نام دیا۔ پھر ایک خاص ٹیسٹ کیا گیا جس میں ذہن کو کمپیوٹر کی مدد سے ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ عمر کے لحاظ سے بچے کا ذہن نشوونما نہیں پا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی گردن بے قابو رہتی ہے اور دورے پڑتے ہیں۔ پھر بچے کو ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا۔ ہم نے بچے کو وطن لانے کا پروگرام بنایا کہ اچانک شام کو اس قدر شدید دورہ پڑا کہ بیان سے باہر ہے۔ بچے کو شدید جھٹکے لگے۔ ہسپتال لے گئے اور مسلسل چار گھنٹوں کی کوشش سے بچہ کو کچھ سکون آیا۔ دوسرے دن ہم بچے کو لاہور لے آئے۔ ایک شاہ صاحب نے بتایا کہ بچے کی ماں پر تعویذات کا اثر ہے جس کا اثر بچے پر آ گیا ہے۔ پھر ایک تارک الدنیا عورت کےپاس بچہ لے جایا گیا جس نے کہا کہ بچے پر دو عدد دیونیاں ہیں وغیرہ وغیرہ۔ انہوں نے علاج کے لئے کافی پیسے خرچ کروا دیئے۔ بچے کو اس ایک ماہ میں پانچ دورے پڑے اور بخار ہو گیا۔ جب میری چھٹی ختم ہو گئی تو بچے کو واپس لانا پڑا۔ یہاں آتے ہی بچے کو نمونیہ ہو گیا۔ اب وہ نمونیہ سے نجات حاصل کر چکا ہے۔ آنکھیں متواتر دائیں سے بائیں حرکت کرتی رہتی ہیں۔ ذرا سی آواز سے بچہ ڈر جاتا ہے۔ اپنے ہاتھوں کے انگوٹھوں کو شہادت اور درمیان والی انگلی میں دے کر مکا بنا لیتا ہے اور بازو اکڑا لیتا ہے۔ اسی طرح ٹانگیں کمان کی طرح ٹیڑھی کر لیتا ہے۔ اس وقت جبکہ اس کی عمر گیارہ ماہ ہونے کو آئی ہے وہ گردن تک نہیں سنبھالتا۔ آوازیں دیں تو کبھی نوٹس لیتا ہے اور کبھی نہیں لیتا۔ دودھ بہت مشکل سے پیتا ہے۔ بچے کی حالت نے ہمیں سخت ذہنی کرب میں مبتلا کر رکھا ہے۔

جواب: ماں کے پیٹ میں بچے کے ذہن کی نشوونما پوری نہیں ہوئی جتنی نشوونما ہوئی ہے اس مناسبت سے دنیا کی فضا کو ذہن نے قبول کیا اور جب قوت مدافعت کمزور ہو گئی تو دماغ کے وہ خلئے جو اعصاب کو کنٹرول کرتے ہیں متاثر ہو گئے۔ نتیجے میں اعصابی نظام میں خلل واقع ہو گیا۔ بچہ کے اوپر آسیب یا دیونیوں کا اثر نہیں ہے۔ یہ محض بیوقوف بنانے والی بات ہے۔ تشخیص کے مطابق ایسا علاج کیا جائے۔ جس سے دماغی نشوونمابحال ہو جائے۔ کسی طریقہ علاج میں ابھی تک میری نظر سے ایسا علاج نہیں گزرا جو پیدائشی دماغی کمزوری کو ختم کر کے پوری طرح صحت بحال کر دے البتہ روحانی علاج میں ایسی تدابیر ہیں جن کو مستقل کئی ماہ تک عمل کرنے سے یہ کمزوری رفع ہو جاتی ہے۔ آپ مجھے بچے کے دو فوٹو بھیج دیں۔ ایک اس وقت کا جب دورہ نہیں پڑا تھا اور ایک دورہ پڑنے کے بعد کا علاج تجویز کر دینا میرا کام ہے، شفاء دینا اللہ کا کام ہے۔ الحمدللہ روحانی علاج کے اس طریقہ سے بہت سے بچوں کو شفا حاصل ہوئی ہے۔

Topics


Roohani Daak (1)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔