Topics
سوال:
میری بڑی بہن کی عمر14یا 15سال تھی اور نویں جماعت میں پڑھ رہی تھیں۔ انہوں نے ایک
بار شکایت کی کہ پیچھے درختوں سے آوازیں آتی ہیں پھر وہ بڑی پر اسرار آوازوں کا
ذکر کرنے لگیں۔ ایک روز والد کو بتایا کہ قریبی دکانوں پر بیٹھے ہوئے لوگ اسے
گالیاں دے رہے تھے۔ اس بات کا یقین اس لیے نہیں آیا کہ ہمارے محلے کے دوکاندار بہت
شریف ہیں۔ والدین نے بہن کی یہ بات سن کر اسے گھر میں بٹھا لیا۔ اس وقت کے بعد
میری بہن پر کئی دور آئے۔ بیماری نے کئی نئے روپ اختیار کئے۔
یہ تو
میں آپ کو بتاتا بھول ہی گئی کہ اس وقت سے پہلے میری بہن نہایت حیادار، تمیزدار
خاموش طبیعت اور سمجھ دار مشہور تھی۔
خاندان
میں اس کی مثالیں دی جاتی تھیں۔
پہلے
اسے وہم ہوا کہ سب گھر والے اس کے دشمن ہیں اور اسے برا بھلا کہتے ہیں۔ ایک بار اس
نے میری امی اور ابا کے نئے سلے ہوئے کپڑے اس طرح کاٹ دیئے کہ وہ دوبارہ پہننے کے
قابل نہ رہے۔ پھر آہستہ آہستہ اس کی حرکتوں کی وجہ سے مار پیٹ بھی کرنا پڑی۔
ہر قسم
کے علاج کئے گئے۔ ڈاکٹر، حکیم، پیر فقیر کوئی نہ چھوڑا لیکن کچھ نہ بنا۔ ایک بار
چند دنوں کے لئے دماغی امراض کے ہسپتال میں داخل کرانا پڑا۔
پھر
چند برس کے بعد کچھ عرصہ ایسا آیا جب وہ بالکل تو نہیں کافی حد تک نارمل ہو گئیں
لیکن کسی کسی وقت ان کے منہ سے ایسی بات نکل جاتی ہے کہ ہم سب شرمندہ ہو جاتے
ہیں۔اس عرصے میں والدین اس کے لئے رشتے کی کوششیں بھی کرتے رہے لیکن یہ کام آسان
نہ تھا کیونکہ ان کی توقعات بہت زیادہ تھیں اور وہ اپنے سے کمتر رشتے کا تصور بھی
نہیں کر سکتی تھیں۔ آخر کار ایک پڑھے لکھے اور خوش شکل اور مناسب ملازمت والے لڑکے
نے سب حالات جانتے ہوئے بھی اپنی چاہت سے رشتہ طلب کیا ۔ کافی توقف کے بعد اور بہن
کی رضامندی سے ان کا نکاح کر دیا گیا لیکن بعض مصلحتوں کی بناء پر رخصتی نہ کی
گئی۔ لڑکا ہمارے گھر آنے جانے لگا بعد میں کسی غلط فہمی کی وجہ سے بہن اپنے شوہر
کے خلاف ہو گئی اور اس کی صورت سے نفرت کرنے لگیں۔ اس لڑکے کے بہنوئی اور میرے
والدین نے بھرپور کوشش کی کہ کسی طرح سے میری بہن راضی ہو جائے لیکن کوئی نتیجہ
نہیں نکلا۔ آخر کار رشتہ ٹوٹ گیا جس سے میرے ماں باپ کو سخت صدمہ پہنچا۔ اس بات کا
میں ذکر ضرور کروں گی کہ بہن کا نکاح بہت شان و شوکت سے کیا گیا تھا تا کہ وہ خوش
ہو جائے اور اس لئے بھی کہ وہ میرے ماں باپ کی سب سے بڑی اولاد تھی۔
میرا
بھائی اور میں جو بہن سے چھوٹے ہیں اس وقت تک شادی کی عمر کو پہنچ چکے تھے لیکن
ماں باپ میری بہن سے پہلے ہماری شادیاں نہیں کرنا چاہتے تھے تا کہ وہ محسوس نہ
کریں۔ اب جبکہ ان کو طلاق ہو گئی ہے اور دوسری جگہ شادی کا امکان نہیں رہا تو
انہوں نے ہم دونوں بھائی بہن کی شادی کر دی۔
ہم
دونوں سے اور خصوصاً مجھ سے وہ بہت حسد کرتی ہیں۔ والدین کی کوشش ہمیشہ سے یہ رہی
ہے کہ مجھ سے بہتر ان سے سلوک کیا جائے تا کہ وہ محسوس نہ کریں لیکن وہ مجھے میرے
میاں اور بچوں کو بہت برا سمجھتی ہیں حالانکہ ہم لوگ ان سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن
وہ ہماری شکلیں بھی دیکھنا پسند نہیں کرتیں۔
اب تین
چار سالوں سے ان کی حالت بگڑتی جا رہی ہے۔ پہلے وہ کچھ عزیزوں، رشتہ داروں کو پسند
کرتی تھیں اور کچھ کو نہیں لیکن اب کسی سے بھی ملنا اور بات کرنا پسند نہیں کرتیں۔
پہلے
اپنے لباس کا خیال رکھتی تھیں اور فیشن کے مطابق ملبوس ہوتی تھیں۔ اب بھی وہ
سمجھتی ہیں کہ میرا لباس میک اپ فیشن کے مطابق ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
بیماری
کے دوران ان کی ایک صلاحیت نے بہت جلا پائی ہے۔ انہیں پینٹنگ کا شوق ہوا اور
پاکستان کے ایک نامور مصور سے انہوں نے تربیت حاصل کی۔ آرٹس کونسل میں بہت عرصہ تک
جاتی رہیں اور اس میدان میں بہت نام پایا ہے۔ پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں ان کی
بنائی ہوئی تصویروں کی نمائش بھی کی گئی۔ ایک بات یہ ہے کہ کہنے کو تو بیمار ہیں
لیکن بے حد خود غرض ہو گئی ہیں۔
اپنے
کھانے اور اپنے آرام و آسائش کا پورا خیال رکھتی ہیں اور ہر وقت اپنے حقوق کے لئے
لڑتی رہتی ہیں۔ والدین بھی یہی چاہتے ہیں کہ اس سے برابری سے بڑھ کر سلوک ہو لیکن
وہ ہمیشہ یہی سمجھتی ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے۔ ان کے اس طرز عمل اور
ہر وقت کے لڑائی جھگڑے نے پورے گھر کا سکون برباد کر دیا ہے۔
جواب:
آپ کی بہن نفسیاتی مریضہ ہیں۔ علاج یہ ہے۔ ان کے بالائی جسم کا ایک بڑے سے بڑا
فوٹو بنوا کر صبح صادق کے وقت اس فوٹو پر پنسل سے دائرے بنائے جائیں اور دائرے اس
طرح سے بنائے جائیں کہ سر اور سینہ دائروں کے اندر آ جائے۔ دائرہ کے اوپر دائرہ
آئے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ پنسل کا سکہ نہ تو زیادہ سخت ہو اور نہ زیادہ نرم ہو
کیونکہ سخت ہو گا تو فوٹو پر خراشیں پڑ جائیں گیں اور نرم ہو گا تو پنسل ٹوٹ جائے
گی اور اس طرح عمل میں خلل واقع ہو جائے گا۔ عمل کی مدت روزانہ پندرہ منٹ، چالیس
روز ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔