Topics

عقیدہ کی خرابی


سوال: جس بات سے میں بہت تنگ ہوں وہ میرا پراگندہ ذہن ہے۔ میں اسلام کے اصولوں کی بہت پابند تھی۔ آج سے تین سال پہلے جب میری عمر پندرہ سال تھی، رات کے وقت عبادت کیا کرتی تھی۔ آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں مجھے عجیب و غریب خیالات آنے لگے(خدا مجھے معاف کرے)۔ میں سوچتی ہوں کہ اللہ مرد ہے اور میں عورت ہوں اور سوچتے سوچتے نہ جانے کہاں پہنچ جاتی ہوں۔ مجھے تو لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ میں نے کئی بار خود کشی کے متعلق سوچا مگر پھر خیال آیا کہ مجھے اپنے خیالات پر قابو نہیں ہے۔ اس کا علاج کروانا چاہئے۔اس کے علاوہ مجھے اپنی والدہ سے بھی نفرت ہے۔ ان کی طرف سے میرا دل میلا ہو چکا ہے۔ دل ہر وقت بجھا بجھا رہتا ہے۔ کسی چیز میں دل نہیں لگتا۔ میں اپنی زندگی بہتر بنانا چاہتی ہوں۔ خدارا مجھے کوئی حل بتایئے۔ میں نے آپ کو اپنا سمجھ کر یہ سب کچھ لکھا ہے۔والدہ صاحبہ سے نفرت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی عمر چالیس سال ہے، دس سال سے بیوہ ہیں، اس کے باوجود جب کوئی مرد ان سے مسکرا کر بات کرتا ہے تو وہ سمجھتی ہیں کہ وہ ان کے اوپر عاشق ہو گیا ہے۔ ماں کے اس رویے سے مجھے بڑی کوفت ہوتی ہے۔

جواب: عقیدہ جب خراب ہو جاتا ہے تو انسان کے دماغ میں ایسے وسوسے اور خیالات آنے لگتے ہیں۔ جن میں خدا، رسول اور مذہب سے بیزاری بے اختیاری ہوتی ہے۔ عقیدے کی خرابی اور ضمیر کی ملامت سے نظر نہ آنے والا ایک متعفن پھوڑا اس کے باطن میں پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اتنا بے چین رہتا ہے کہ اس کی مثال بڑی سے بڑی بیماری میں بھی نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ اس تکلیف دہ کیفیت سے نجات پانے کے لئے کورے یا دھلے ہوئے کھدر یا لٹھے کا ایک کرتا سلوایا جائے۔ یہ کرتا سارے جسم پر ایک ایک بالشت زائد ہو اور ٹخنوں تک نیچا ہو۔ آستینیں بھی ایک ایک بالشت کھلی ہوئی ہوں۔ کسی ایسے کمرے میں جہاں اندھیرا ہو(اندھیرا نہ ہو تو کر لیا جائے) یہ کرتا پہن کر پندرہ منٹ ٹہلئے اور ٹہلتے وقت الحمدللّٰہ رب العالمینoالرحمن الرحیمoمالک یوم الدین oپڑھتی رہئے۔ پندرہ منٹ کے بعد اندھیرے میں کرتا اتار کر تہہ کر کے اسی کمرے میں کسی محفوظ جگہ پر رکھ دیں۔ جب تک عقیدہ درست نہ ہو اس وقت تک یہ عمل کیا جائے۔ صرف اندھیرا شرط ہے۔

Topics


Roohani Daak (1)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔