Topics

شوہر کا مزاج


سوال: میرے شوہر بہت بے حس ہیں۔ گیارہ سال کے عرصے میں دو تین بار آئے ہیں مگر ایسے جیسے کوئی غیر ہو۔ نہ بچوں سے دلچسپی اور نہ مجھ سے بات چیت۔ سوائے لڑائی جھگڑے کے اور جانے کے لئے ایسے بے چین ہو جاتے ہیں جیسے گھر بار یہاں نہیں وہاں غیر ملک میں ہے ۔اگر کچھ دنوں کیلئے یہاں رہتے بھی ہیں تو سوچوں میں مشغول، نہ بچوں سے بات کرنا ، نہ ہی گھر میں کسی ضرورت کا خیال رکھنا اور اب کے چار سال بعد آئے تھے۔ مگر بڑی مشکل سے دو ہفتے رہے اور ایک دن پہلے ائیرپورٹ چلے گئے۔ اور وہاں کرائے کا کمرہ لے کر رہے مگر رات گھر پر نہیں گزاری۔ وہ جب بھی آتے ہیں اسی طرح پیچھا چھڑاتے ہیں جیسے ہم کوئی چیز نہیں ہیں۔ افسوس اس چیز کا ہے کہ دنیا میں میرا کوئی نہیں۔ پندرہ سال کی عمر میں اس شخص سے شادی ہوئی تھی۔ اس وقت ان کی عمر چالیس سال ہو گی۔ گیارہ بارہ سال سے میں آٹھ بچوں کی دیکھ بھال خود کر رہی ہوں اور میرے شوہر بالکل بے تعلق ہو گئے ہیں۔

میں نے کہا مجھ سے اکیلئے اتنا کام نہیں ہوتا، نہ ہی میں اب لوگوں کی باتیں سن سکتی ہوں۔ اس کا جواب یہ دیا کہ کوئی نوکری کر لے یا کسی سے نکاح کر لے۔ میں کسی کو رکھ لوں گا، گھر کی فکر نہ کر، سب کچھ ہو جائے گا۔ اس دن سے میری صحت ہر وقت خراب رہتی ہے اور دل اداس رہتا ہے۔ آپ خدا کے لئے کوئی ایسی چیزدیں کہ اس شخص کے دل میں محبت اور ہمدردی پیدا ہو۔ وہ بہت کچے کانوں کے مالک ہیں جو بھی سکھائے اسی کی سن لیتے ہیں اور ویسے ہی کرتے ہیں۔ ہر ایک کے سامنے سچے بن جاتے ہیں اور مجھے برا بنا دیتے ہیں۔ جس کی وجہ ہے کہ میں کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ یتیم بے سہارا جو ہوئی۔ اگر کوئی سہارا ہوتا تو شاید وہ ایسا نہ کرتے۔ خود بھی قدر کرتے اور اوروں سے بھی کراتے۔

میں جس کے ساتھ اچھائی سے پیش آتی ہوں، وہی میرا دشمن بن جاتا ہے۔ وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ گھر میں بھی آئے دن کچھ نہ کچھ وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ نہ گھر میں دل لگتا ہے اور نہ ہی کسی اور جگہ۔

جواب: آدھی رات گزرنے کے بعد وضو کر کے مصلیٰ پر بیٹھ جائیں۔ سو مرتبہ درود شریف اور سو مرتبہ یا حی یا قیوم کا ورد کر کے مصلیٰ پر ہی چت لیٹ جائیں۔ آنکھیں بند کر کے یہ تصور کریں کہ گلے سے ناف تک آپ کے اوپر شیشے کا ایک جار رکھا ہوا ہے۔ اس جار میں روشنیاں بھری ہوئی ہیں۔ جب روشنیاں سامنے آ جائیں، یہ دیکھیں کہ آپ کے شوہر اس جار کے اندر موجود ہیں جیسے شیشے کے کسی بڑے برتن میں مچھلی نظر آتی ہے۔ تین چار ہفتوں کے اس عمل سے آپ کے شوہر کا مزاج آپ سے ہم آہنگ ہو جائے گا۔

Topics


Roohani Daak (1)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔