Topics

پیلیا-Piliya


بچے کی پیدائش کے تین دن بعد اس کو پیلیا ہوا۔ 6دن کا تھا جب ہم اسے سپیشلسٹ ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تو اس نے خون کی کمی بتائی، جس کے بعد اس نے یرقان کے علاج کے ساتھ خون کی بوتل کا چوتھائی حصہ دو دفعہ دیا۔ ایک ہفتہ ہسپتال میں رکھ کر ایک ہفتے بعد دکھانے کے لئے کہا۔ لیکن جب ہفتے بعد ہم دکھانے کے لئے گئے تو بچے کی حالت بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی۔ دوران خون بڑھ گیا تھا۔ اور بچے کو جھٹکے لگنے لگے تھے۔ 20دن کا تھا جب ڈاکٹروں کے زیر علاج بیہوش ہو گیا اور تقریباً 17,16دن بیہوش رہا۔ بیہوشی ہی میں بعض اوقات عجیب و غریب آوازیں نکالتا۔ سانس رک جاتا یعنی سانس کی رفتار بہت سست ہو کر گلے تک محدود ہو جاتی اور سینے کے اندر بالکل نہ جاتی۔ کئی کئی گھنٹے یہ حالت رہتی بس ایسی ہی تکالیف میں بچے کو خدا نے صحت تو دی۔ لیکن اب ڈاکٹروں کے کہنے کے مطابق دماغ کے اس حصے کی جو جسم کو کنٹرول کرتا ہے۔ تمام نسیں کھنچ گئی ہیں ۔ یرقان کا اثر تمام جسم کے ساتھ دماغ پر بہت گہرا ہوا ہے۔ اب بچہ اوپر کی طرف زیادہ دیکھتا ہے۔ تمام جسم کو اکڑا لیتا ہے کبھی کبھار جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے۔

آواز کو معمولی سمجھتا ہے۔ تھوڑی سی آواز سے ڈر جاتا ہے۔ آواز کے بغیر بھی اکثر و بیشتر ڈرتا رہتا ہے۔ سر چھوٹا ہے یعنی شدیدبیماری کے بعد ڈاکٹری رپورٹ کے مطابق سر4انچ کا تھا۔ اب ڈھائی سال کی عمر میں بھی اتنا ہی ہے۔ ہاتھ پیر معمولی ہلاتا ہے۔ روتے وقت بہت لمبا سانس کھینچ کر بالکل نیلا ہو جاتا ہے۔ واکرمیں بٹھا دیں تو بیٹھ جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کے علاج کے ساتھ ساتھ روحانی علاج بھی ہوتا رہا۔ اللہ کے کلام سے الٹی اور بخار کچھ کم ہوا ہے ورنہ الٹی اور بخار شروع تھا۔ مولوی صاحبان کہتے ہیں کہ اسے باہر کا اثر ہے۔

جواب: سونے کے پترے پر بارہ مرتبہ تین لائنوں میں 9کا ہندسہ سنار سے کندہ کرائیں۔ سونے کا یہ نقش شدہ پترہ بلور کے پیالہ میں پانی میں عشاء کی اذان کے وقت ڈال دیں۔ رات بھر یہ پترہ ایک پیالی پانی میں بھیگا رہنے دیں۔ صبح پانی میں سے پترہ نکال لیں اور پانی بچے کو صبح اور رات کو پلا دیں۔ یہ عمل تین ماہ تک برقرار رکھیں۔

Topics


Roohani Daak (1)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔