Topics

انا للہ و انا الیہ راجعون-Inalilah waina ilhey rajeoon

سوال: کسی نے سوال دریافت کیا ہے کہ’’زندگی کے مقام اور حالات کہاں چلے جاتے ہیں؟‘‘ میں نے انہیں لکھ دیا ہے کہ مجھ میں اتنی قابلیت نہیں جو اس موضوع پر کچھ کہہ سکوں البتہ قبلہ خواجہ صاحب کی خدمت میں عرض کر سکتا ہوں جیسا جواب آئے گا تحریر کر دوں گا۔ یہاں تھوڑا سا عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ اگر اس کا جواب یہ دیا جائے کہ’’وقت کی بساط پر‘‘ تو وقت خود انسانی ذہن کی پیداوار ہے۔ آپ ذرا اس پر تفصیل سے روشنی ڈالیں اور اشاعت میں شامل فرمائیں تا کہ اور لوگ بھی مستفید ہو سکیں۔

جواب: حیات کیا ہے، بڑے بڑے مفکرین، دانشور اور سائنس دان جن کے سروں پر دور حاضر کے گوناگوں ترقیوں اور عروج کا تاج ہے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے طفل مکتب نظر آتے ہیں۔ جب ہم صحائف انبیاء اور الہامی و آسمانی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ان لاریب کتابوں کا اصل موضوع حیات اور زندگی ہی ہے۔زندگی کیا ہے؟ اس کی ابتدا اور اس کا ظہور کس طرح ہوتا ہے؟ 

اور یہ معدوم ہو کر کس طرح اپنے انجام کو پہنچتی ہے؟ لیکن صد افسوس کہ مذاہب کے کچھ پیروکاروں نے ان الہامی کتابوں کے اصل مقصد’’روحانیت‘‘ کے حصول کے بجائے ان کی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے کہ عام لوگوں کا ان تعلیمات کی حقیقت تک پہنچنا ایک مسئلہ لا ینحل بن گیا ہے مثلاً مذہب کے کچھ پیروکاروں نے پیدائش اور موت کے بعد کی زندگی کو آواگون کا مسئلہ بنا دیا ہے۔

یا کچھ مذہبی مولویوں نے انہی الہامی کتابوں کے حوالے سے اللہ کی الرحمٰن الرحیم ذات کو ڈر و خوف، سزا اور عذاب کا (SYMBOL) یا علامت بنا دیا۔ انہی ناقص اور محدود سوچ کے حامل لوگوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے مخلوق خدا، ایک خدا اور رسولوں کی ایک ہی تعلیمات پر جمع اور متحد ہونے کی بجائے مختلف مذاہب، فرقوں اور گروہوں میں بٹتی چلی گئی لیکن ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب اقوام عالم کسی ایک نقطہ پر متحد ہونے پر مجبور ہو گی اور وہ نقطہ’’قرآنی وحدت‘‘ ثابت ہو گا۔

اب آیئے اصل بات کی طرف آتے ہیں بات یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ پیدا ہونے کے بعد جن حالات میں زندگی گزرتی ہے وہ کہاں چلے جاتے ہیں؟ اور اگر یہ کہا جائے کہ حالات اور اعمال و حرکات وقت کی بساط پر رواں دواں ہیں تو وقت کی کیا حیثیت ہے؟ 

آسمانی کتابوں کے نقطہ نظر سے اللہ تعالیٰ نے وقت حالات اور زندگی کے لئے دو رخ متعین کئے ہیں ایک رخ اعلیٰ اور دوسرا رخ اسفل، ہم جب اعلیٰ اور اسفل رخ میں تفکر کرتے ہیں تو یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ اعلیٰ اور اسفل۔۔۔۔۔۔دونوں رخوں میں عمل کی حیثیت ایک ہی ہے صرف نیت سے کسی عمل یا کردار کو اعلیٰ اور اسفل قرار دیا جاتا ہے۔ آسمانی کتاب قرآن مجید میں اعلیٰ اور اسفل دونوں زندگیوں کو ’’کتاب المرقوم‘‘ یعنی نوشتہ کتاب کہا گیا ہے۔ ترجمہ۔۔۔۔۔۔آپ کیا سمجھے علیین(اعلیٰ زندگی) سجیین(اسفل زندگی) کیا ہے ، لکھی ہوئی کتاب ہے۔ موجودہ دور سائنسی علوم کی روشنی میں ’’فلم‘‘ کا نام دیں تو مسئلہ آسانی کے ساتھ سمجھ میں آ جاتا ہے۔ آسمانی کتابوں کے ساتھ ساتھ جو باتیں پیغمبروں نے وضاحت سے بیان کی ہیں ان سے بھی مسئلہ روشن اور واضح ہو جاتا ہے۔ حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے۔’’زمانے کو برا نہ کہو(وقت، حالات، زندگی) اللہ ہے۔‘‘

اب اس مختصر تمہید کے بعد اس بات کو عام فہم زبان میں اس طرح کہا جائے گا کہ زندگی، حیات قبل از زندگی اور بعد از موت سب مقام اور حالات ’’کتاب المرقوم‘‘ نوشتہ کتاب یا ایک فلم ہے۔ بات کچھ یوں بنی کہ کائنات میں جو کچھ ہو چکا ہے، جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے، وہ سب کا سب لوح محفوظ پر نقش ہے۔ ان نقوش(FILE) کو جب اللہ تعالیٰ کی تجلی فیڈ(FEED) کرتی ہے تو یہ نقوش مختلف اسکرین پر متحرک ہو جاتے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ لوح محفوظ پر زمان و مکان کی یہ کیفیت نہیں ہے جو کیفیت ارض (EARTH OR SCREEN) پر ہے۔ لوح محفوظ کے قانون کے مطابق لوح محفوظ سے نزول کرنے والے نقوش لوح دوئم اور برزخ سے گزر کر عرش پر متحرک ہوتے ہیں۔ ارض یا زمین پر قابل تذکرہ مخلوق انسان ہے۔ 

روحانی نقطہ نظر سے جب ہم انسانی تخلیق کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں تین بساط (SCREENS) نظر آتی ہیں۔ پہلی بساط پر واہمہ اور خیالات کا نزول ہوتا ہے ۔ دوسرے بساط پر تصورات اور احساسات کے نقوش بنتے ہیں اور تیسری بساط پر مظاہرات خدوخال کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جس طرح ان نقوش کا نزول ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ نقوش دوبارہ ان تین بساط سے گزر کر لوح محفوظ میں چلے جاتے ہیں۔ یعنی زندگی کے مقام اور حالات، پیدائش اور موت سب ایک فلم(لوح محفوظ) ہے جو مسلسل اور متواتر چل رہی ہے۔ جن صاحب دل لوگوں کو روحانی نقطہ عروج نصیب ہو جاتا ہے وہ اس بات کو مشاہداتی طور پر دیکھ لیتے ہیں کہ

انا للّٰہ و انا الیہ راجعون

یعنی ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ کی طرف لوٹ رہی ہے۔


Topics


Roohani Daak (1)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔