Topics
سوال: ہمارے گھر میں روپے پیسے کی کمی نہیں ہے۔ آرام و آسائش کی ہر چیز مہیا ہے لیکن پھر بھی حال یہ ہے کہ گھر کا ماحول گھٹا گھٹا سا معلوم ہوتا ہے اور اس کے مکین بجھے بجھے سے لگتے ہیں۔ امراض اور جسمانی عوارض نے گھر کے لوگوں کو اپنا مستقل نشانہ بنا رکھا ہے۔ کبھی کوئی بیمار ہو جاتا ہے اور کبھی کسی کو کوئی مرض آن پکڑتا ہے۔ بے سکونی نے گھر پر ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ افراد خانہ پر چڑچڑاپن سوار رہتا ہے اور بات بات پر تیز کلامی کی نوبت آ جاتی ہے۔ ایک جاننے والے نے بتایا کہ ہمارے گھر پر کسی نے کچھ کرا دیا ہے۔ تا کہ ہم لوگوں کو سکون نہ ملے ۔ ہم نے جادو کے توڑ کے لئے کئی عمل خود بھی کئے اور عاملوں سے بھی کروائے لیکن ابھی تک اس کا کوئی توڑ نہیں ہو سکا ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ اپنے علم کی روشنی میں اس صورتحال کا تدارک کریں۔
جواب: انسان جس ماحول میں زندگی گزارتا ہے اس کے اثرات کا ذہن اور جسم پر مرتب ہونا لازمی امر ہے۔ اگر ماحول میں الجھاؤ نہیں ہے، ذہنی استقامت ہے تو انسان کے اندر روشنیوں کا ذخیرہ کم خرچ ہوتا ہے۔ یہ وہی روشنیاں ہیں جو لائف اسٹریم کی حیثیت سے ہر آدمی کے اندر ذخیرہ ہوتی ہیں۔ ان روشنیوں کا اعتدال سے خرچ ہونا ہی صحت بخش زندگی کی علامت ہے۔ سائنس بھی ہمیں بتاتی ہے کہ توانائی(کیلوریز) بنتی اور استعمال ہوتی رہتی ہے۔ آدمی کو اصولی طور پر اس دنیا میں بنیادی ضروریات کے علاوہ کچھ نہیں چاہئے۔ اب یہ اس کی مرضی ہے کہ وہ خود کو کس حد تک دنیوی معاملات میں الجھا لیتا ہے۔
مثلاً ایک کمرہ جس میں صرف ایک چارپائی بچھی ہوئی ہے اور ایک دوسرا کمرہ ہے جس میں صوفہ سیٹ، دیوان، میز، قالین وغیرہ ہیں۔ قانون یہ ہے کہ جب ہم کسی چیز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں یا اسے دیکھتے ہیں تو اس چیز کا عکس ہمارے دماغ کی اسکرین پر پڑتا ہے اور ا س عمل میں کیلوریز خرچ ہوتی ہیں۔ جب ہم دوسرے کمرے میں موجود ہوتے ہیں تو اس وقت وہ انرجی جسے زندگی کا ایندھن بننا چاہئے، صوفہ سیٹ اور قالین وغیرہ کی نذر ہو جاتی ہے۔ علی ہذا القیاس، زندگی میں کام آنے والی انرجی بے شمار وسائل کے حصول، اس کی فکر، رکھ رکھاؤ اور اس کے استعمال میں خرچ ہو جاتی ہے اور ترقی اور اسٹیٹس کا عفریت آدمی کو نگل کر موت کے منہ میں ڈال دیتا ہے۔
آپ کے گھر میں جو صورتحال درپیش ہے اس کے تجزیہ سے یہ بات از خود سامنے آجاتی ہے کہ زندگی کو خوشی، سکون اور صحت سے ہمکنار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر ذہنی استغناء موجود ہو۔ ذہن میں استغناء کو جگہ دینے کے ساتھ ساتھ معاشی وسائل اور ذرائع کو مخلوق خدا کے لئے وقف کریں تا کہ روپے پیسے کی طرف سے ایک توازن پیدا ہو۔ یہ عمل استغناء کے حصول میں بہت معاون ثابت ہو گا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔