Topics

ذہنی الجھنیں


سوال: بچپن سے ہی میری عادت ہے کہ میں بہت زیادہ سوچتا ہوں یعنی بہت زیادہ بلکہ حد سے زیادہ سوچنے کا عادی ہوں۔ کوئی بھی واقعہ یا کوئی بھی معمولی بات ہو یا کوئی بھی چھوٹا سا مسئلہ ایک دفعہ میرے ذہن میں آ جائے تو بس اس سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس پر سوچتا رہتا ہوں۔ خوب غور و غوض کرتا ہوں اور سوچتے سوچتے بالکل گہرائی میں ڈوب جاتا ہوں۔ بس یوں سمجھئے کہ سوچ سوچ کر ایک رائی کے دانے کو بھی پہاڑ بنا لیتا ہوں اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ جو جتنا زیادہ سوچتا ہے اتنا ہی زیادہ ڈوبتا ہے۔ بس یہی معاملہ میرے ساتھ ہے۔ سوچتے سوچتے ایک معمولی سا مسئلہ بھی ایک بہت بڑی الجھن بن جاتا ہے اور پھر جیسے جیسے سوچتا ہوں ویسے ویسے اور زیادہ الجھنوں میں پھنستا جاتا ہوں۔ یعنی الجھنیں یکے بعد دیگرے بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ذہنی سکون بالکل ختم ہو گیا ہے اور میں مستقل طور پر ذہنی الجھنوں کا مریض بن گیا ہوں۔

جواب: قانون تخلیق کے تحت انسانی ذہن تین پرت کا مجموعہ ہے۔ ہر پرت کے محسوسات ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں۔ ان تینوں میں ایک پرت وہ ہے جو خیال کو تصور بنا کر جسد خاکی میں منتقل کرتا ہے۔ جسد خاکی تصورات کو معنی کا لباس پہنا کر خوشی اور غم کے نقش و نگار ترتیب دیتا ہے۔ اس کو اگر ایسی معلومات فراہم کی جائیں جو خوشی کا پیش خیمہ ہوں تو اس کے اندر خوشی کے طوفان اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اگر ایسی اطلاعات فراہم کی جائیں جن کا تعلق رنج و غم سے ہو تو اس کے اندر مایوسی، بے کیفی، احساس کمتری، زندگی سے بیزاری اور نت نئی الجھنیں جنم لینے لگتی ہیں۔ یہ پرت بالکل غیر جانبدار رہتا ہے۔ اس کو جیسی اطلاعات فراہم کر دی جاتی ہیں وہ ان کو مظاہر میں پیش کر دیتا ہے۔ اطلاع فراہم کرنے والا پرت جب فطرت سے کٹ جاتا ہے یا اس میں فطرت کے اصولوں سے دوری واقع ہو جاتی ہے تو وہ ایسی اطلاعات دینا شروع کر دیتا ہے جو فطرت کے خلاف اور غیر حقیقی ہوتی ہیں۔ فطرت میں مایوسی، احساس شکستگی، خود کشی کا رجحان خود کو اور لوگوں سے کمتر یا برتر سمجھنا، خواہ مخواہ کی الجھنوں میں گرفتار رہنا، کہیں نہیں ہے۔ یہ سب غیر فطری چیزیں ہیں۔ فطرت ہمیشہ پر سکون رہتی ہے۔ فطرت سے دوری ہی انسانی مشکلات و مصائب کا سبب بنتی ہے۔ فطرت سے قریب آ جائیے، سارے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ طریقہ یہ ہو گا کہ صبح اندھیرے اٹھئے اور جھٹ پٹے میں کم سے کم دو میل روزانہ ٹہلئے۔ زیادہ سے زیادہ تین ہفتے میں آپ الجھنوں سے نجات حاصل کر لیں گے۔ لیکن فطرت سے قریب ہونے کا یہ طریقہ کم سے کم تین ماہ جاری رکھئے۔

Topics


Roohani Daak (1)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔