Topics

کشف القبور


سوال: کالم روحانی ڈاک میں اکثر مراقبہ کا ذکر ہوتا ہے مثلاً مراقبہ اور نماز، مراقبہ اور دعا کی قبولیت اور ذہنی یکسوئی کا مراقبہ وغیرہ۔ براہ کرم اس مراقبہ پر بھی روشنی ڈالئے جو بزرگوں کے مزارات پر کیا جاتا ہے تا کہ معلوم ہو سکے کہ یہ مراقبہ کس طرح کیا جاتا ہے اور کس مقصد کے لئے کیا جاتا ہے؟

جواب: یہ ایک حقیقت ہے کہ گوشت پوست کے جسم کے فنا ہونے کے بعد بھی زندگی کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور زندگی اس مادی دنیا سے روشنی کی دنیا میں منتقل ہو جاتی ہے۔ یہی ہمارا مذہبی ایمان ہے۔ انسان کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اس گوشت پوست کے جسم میں رہتے ہوئے بھی اس دنیا سے متعارف ہو سکتا ہے ، اس دنیا سے تعلق قائم کر سکتا ہے، جو پس پردہ موجود ہے۔وہ حضرات جنہوں نے اس مادی دنیا سے پردہ فرما لیا ہے۔ ان سے ملاقات اور حصول فیض و برکت کے لئے مراقبہ کیا جاتا ہے۔ اس مراقبہ میں مادی دنیا سے توجہ ہٹا کر مرنے کے بعد کے عالم میں مرکوز کی جاتی ہے جسے اعراف کہتے ہیں۔ جب ذہنی یکسوئی اور مرکزیت قائم ہو جاتی ہے تو صاحب مراقبہ متعلقہ روح سے ملاقات کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ تصوف میں اس مراقبہ کا اصطلاحی نام ’’کشف القبور”ہے۔ مراقبہ کسی بھی قبر پر کیا جا سکتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ کسی عام قبر پر یہ اس لئے کیا جاتا ہے کہ صاحب قبر کی اگلی زندگی کا انکشاف ہو جائے۔ لیکن اولیاء کرام کے مزارات پر ان سے فیض و برکت کے حصول کے لئے کیا جاتا ہے۔کشف القبور کا ایک طریقہ یہ ہے کہ قبر کی پائنتی کی طرف بیٹھ کر چند گہرے سانس آہستہ آہستہ لئے جائیں اور پھر آنکھیں بند کر کے ذہن کو قبر کے اندر اس طرح مرکوز کیا جائے کہ جیسے وہ گہرائی میں سفر کر رہا ہے۔ ذہنی قوت اور مرکزیت کی مناسبت سے چند منٹوں میں بھی کامیابی ہو سکتی ہے اور کئی بار بھی یہ عمل کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ بات بتا دینی ضروری ہے کہ کشف القبور کے عمل کو بغیر اجازت قطعی نہیں کرناچاہئے۔

Topics


Roohani Daak (1)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔