Topics

علاج کی ضرورت نہیں ہے۔توہمات


سوال: میراچوتھا بچہ جس کی عمر 14سال ہے۔ پیدا ہونے کے چھ دن تک بالکل ٹھیک رہا۔ جب میری دیورانی آئی تو اس کے بعد میرا بیٹا بیمار ہو گیا۔ سوکھ کر کانٹا ہو گیا۔ ایک سال تک میں نے اس کے علاج میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بڑی تکلیف اٹھا کر بڑا ہوا اس کے بعد بیٹی پیدا ہوئی جس کی عمر 12سال ہے۔ وہ بھی موٹی تازی ہوئی تھی مگر آہستہ آہستہ سوکھ کر کانٹا ہو گئی۔ 14سال ہو گئے ہیں، میں صحت کے لئے ترس گئی ہوں۔ بہت علاج کیا، لیڈی ڈاکٹر، ڈاکٹر، حکیم، ہومیوپیتھک سب کا علاج کرایا۔ ایسا لگتا ہے جیسے دوائیوں میں اثر ہی نہیں۔ پانچوں وقت کی نمازادا کرتی ہوں۔ یٰسین پڑھ کر دم کر دم کرتی ہوں کہ یا اللہ تو شفا دے۔ تجھے کسی چیز کی کمی نہیں، شفا تو تیرے ہاتھ میں ہے۔ یہاں یہ بتاتی چلوں کہ جو دیورانی میرے یہاں آئی تھی اس کے ہاں جتنے بچے ہوتے ہیں، ٹھیک ہوتے ہیں۔ پھر انہیں بھی سوکھے کی بیماری لگ جاتی ہے۔ میرے چلے میں اس کے آنے سے میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ آنتوں اور معدہ پر ورم ہے، زبان پر سفید تہہ سی جمی رہتی ہے۔ منہ سے بدبو آتی ہے، قبض رہتا ہے۔

جواب: خواہ مخواہ توہمات میں مبتلا نہ ہوں۔ سیدھی سی بات ہے کہ آپ کے خون میں کوئی نقص ہے۔ اس نقص کی وجہ سے بچوں نے چونکہ ناقص دودھ پیا ہے اس لئے ان کے معدہ اور آنتوں میں بیماری پیدا ہو گئی ہے۔ نتیجہ میں دست آنے لگے۔ ظاہر ہے جب غذا ہضم نہیں ہو گی تو دست آتے رہیں گے۔ بچہ سوکھ جائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ کے یہاں غذائیں صاف ستھری نہیں کھائی جاتیں اور کھانے پینے میں پورا گھر بے اعتدالی کا شکار ہے۔ آپ اور آپ کی دیورانی آپ کے بچے سب اس بے اعتدالی کی وجہ سے بیمار ہیں۔ علاج یہ ہے کہ غذا کے بارے میں مقامی طور پر کسی حکیم یا ڈاکٹر سے مشورہ کر کے غذا میں اعتدال قائم کریں۔ صحت خود بخود ٹھیک ہو جائے گی۔ کسی علاج کی ضرورت نہیں ہے۔

Topics


Roohani Daak (1)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔