Topics

بھوت-Bhoot


سوال: دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر عورتوں اور کسی حد تک مردوں پر جب جن آتا ہے تو ان کی شخصیت میں حیرت انگیز تبدیلی واقع ہو جاتی ہے، آواز بدل جاتی ہے۔ حیرت ناک قوت کا مظاہرہ ہوتا ہے بعض اوقات آسیب زدہ یا جن زدہ ایسی زبان بولتا ہے جو وہ خود نہیں جانتا، وہ شخص اپنا تعارف بھی ایک جن کی حیثیت سے کراتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اس کی علمی توجیہہ کیا ہے؟

جواب: پوری نوع انسانی میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کو کبھی نہ کبھی اس کی صلاحیتوں کا تجربہ نہ ہوا ہو چاہے بیداری میں یا خواب میں، انسانی حواس دو طرح کام کرتے ہیں۔ براہ راست اور بالواسطہ، بالواسطہ کام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم آنکھوں سے دیکھتے، کانوں سے سنتے، ہاتھوں سے پکڑتے اور پیروں سے چلتے ہیں۔ حواس کے اس براہ راست کام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم بغیر جسمانی نظام کی مدد کے خواب میں خود کو چلتے پھرتے غرض ہر وہ کام کرتے دیکھتے ہیں جو بیداری میں ہم سے سرزد ہوتا ہے۔ حالانکہ ہمارا جسم بالکل معطل ہے۔

کبھی کبھی بیداری میں بھی حواس براہ راست کام کرنے لگتے ہیں اور اعصابی نظام بالکل معطل ہو جاتا ہے۔ حتیٰ کہ حافظہ بھی کام نہیں کرتا مرض کا بوس اس کی مثال ہے۔ سوال مرض کا نہیں۔ حواس کے براہ راست کام کرنے کا ہے’’کابوس‘‘ کی حالت میں آدمی اپنے بستر سے اٹھتا ہے ، کپڑے بدل کر دفتر جاتا ہے، وہاں کام کرتا ہے ، واپس آ کر کپڑے بدل کر سو جاتا ہے لیکن اسے یہ قطعی یاد نہیں رہتا میں نے سونے کی حالت میں کیا عمل کیا ہے۔

یہ بھی حواس کے براہ راست استعمال ہونے کی ایک طرز ہے۔ یہی کابوس کی کیفیت ہپناٹزم کے ذریعے انسان پر مسلط کر دی جاتی ہے۔ تو اس وقت بھی وہ بالکل بے ارادہ ہو کر عامل کے حکم کی تعمیل کرتا ہے۔ بیداری میں یہ کیفیت بعض اوقات از خود مسلط ہو جاتی ہے کوئی دوسرا شخص اسے ہپناٹائز نہیں کرتا بلکہ وہ خود ہی اپنے آپ کو ہپناٹائز کر لیتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب کسی جذبہ رجحان یا تقاضہ میں اتنی شدت پیدا ہو جائے کہ یہ شدت اعصاب کو مفلو ج کر دے جیسے ہی اعصاب مفلوج ہوتے ہیں حواس کا براہ راست استعمال شرو ع ہو جاتا ہے۔ شدت کی وجہ سے حواس کا رویہ معاندانہ ہوتا ہے۔ اعصاب کے مفلوج ہو جانے سے جن خلیوں میں یادداشت کا ریکارڈ رہتا ہے وہ اپنا عمل ترک کر دیتے ہیں اور یادداشت کی ترتیب ختم ہو جاتی ہے۔

اب حواس اس عادت کی بناء پر ایک کہانی بنا لیتے ہیں اور اپنے ہی جسم پر وہ کہانی عملاً استعمال کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ فلاں جن ہوں، میرا نام یہ ہے، میں چڑیل ہوں، میں فلاں ہوں وغیرہ وغیرہ۔براہ راست فعل کی وجہ سے حواس بہت سی ایسی باتوں کا بھی انکشاف کر دیتے ہیں جو پس پردہ ہوتی ہیں۔

Topics


Roohani Daak (1)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔