Topics

پیرصاحب-Peer Sahib


سوال: ہم بہت زیادہ پریشان ہیں اور پریشانی کا سبب ایک پیر صاحب ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ آج سے تین روز قبل ایک پیر صاحب ہمارے گھر میں وارد ہوئے۔ انہوں نے آتے ہی اپنا تعارف کچھ یوں کرایا کہ ملتان میں مقیم تمہارے بھائی صاحب کا میں پیر ہوں اور انہوں نے مجھ سے درخواست کی ہے کہ میں کراچی میں آپ لوگوں سے ملوں تا کہ آپ کی پریشانیوں کا تدارک کر سکوں۔

ہم نے انہیں اند ربلا لیا۔ گھر پر اس وقت والد صاحب اور دیگر تمام اہل خانہ موجود تھے۔ صبح کا وقت تھا۔ ان بزرگ کے ساتھ دو لڑکے بھی ملتان سے آئے تھے۔ لڑکوں میں سے ایک نے کہا کہ ہمارے پیر صاحب کا طریقہ کشف کچھ مختلف ہے۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے سامان کی اچھی خاصی فہرست مرتب کی اور کہا کہ بازار سے سامان خرید کر لایا جائے۔ اس سامان میں سات گز لٹھا۔ ایک سٹیل کی نئی بڑی بالٹی۔ ایک نیا پلنگ ،چراغ کے لئے آٹھ عدد مٹی کے کوزے اور کیلیں تھیں۔ اچھی خاصی رقم خرچ کر کے یہ چیزیں فراہم کر دی گئیں۔ کمرے میں نئے پلنگ پر بستر لگایا۔ پیر صاحب اس پر بیٹھ گئے اور کچھ پڑھنا شروع کیا۔ پڑھتے ہی وہ بستر پر گر گئے ہم پریشان ہو گئے کہ خدانخواستہ ان کی روح نہ پرواز کر گئی ہو لیکن ان کے چیلے نے کہا، سب خیریت ہے دراصل اب ان کے اندر ایک بزرگ حلول کر گئے ہیں۔ آپ جس قسم کا سوال ان سے پوچھنا چاہتے ہیں پوچھیں، یہ جواب دینگے۔ یہ سن کر والد صاحب نے ان سے دریافت فرمایا کہ میری پریشانی کا سبب کیا ہے، سکون قلب کیوں حاصل نہیں ہوتا۔ آپ اس کا تدارک بھی فرمایئے۔ جواباً بزرگ نے ارشاد فرمایا کہ تم سے بچپن میں کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے۔ جس کی سزا اللہ کی جانب سے تمہیں اب تک مل رہی ہے۔ تدارک کے بارے میں فرمایا کہ آپ ایک عدد کالا بکرا گھر میں لا کر صدقہ کریں اور اس کا خون گھر کے چاروں کونوں میں ڈال دیں۔

پھر والدہ نے دریافت کیا کہ میرا بیٹا گزشتہ چار سال سے سعودی عرب میں ہے وہ کراچی اب تک ملنے نہیں آیا کیا وجہ ہے؟ ان بزرگ کے اندر موجود دوسری روح نے کہنا شروع کیا کہ تمہارا بیٹا کراچی نہیں آئے گا وہ چاہتا ہے کہ وہاں پیسہ کمائے اور خوب پیسہ کما کر آپ کو بھیجے لیکن وہ اس کوشش میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکا۔ الغرض بہت سے سوالات ہوئے بہت سے جوابات موصول ہوئے لیکن وہ جواب قطعی نہ تھے بلکہ ایسے تھے کہ کوئی بھی ایسے جوابات دے سکتا تھا پھر ہماری باجی کی شامت آئی۔ انہیں قریب بلا لیا اور سر کے بال نوچنے شروع کئے۔ ہم حیرت سے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے چند بال باجی کے سر سے اکھاڑے اور ایک کاغذ میں لپیٹ دیئے اور باجی سے کہا کہ باہر گلی میں جا کر اپنے پاؤں کی مٹی لے آؤ۔ چنانچہ باجی نے ان کے حکم کی تعمیل کی اور مٹی لا کر ان کے سامنے حاضر کر دی۔ انہوں نے اس مٹی کو بالوں والی پڑیاں میں ڈالا اور کچھ پڑھا اور باجی کے حوالے کر دیا اور کہا جب بھی کوئی مصیبت درپیش ہو۔ ہوامیں اچھال دینا، مسئلہ حل ہو جائے گا۔ ملتان سے آئے ہوئے ماڈرن بزرگ کی دوپہر کے کھانے پر خوب خاطر مدارت کی گئی۔ کھانے سے فارغ ہو کر انہوں نے تعویذ لکھنا شروع کئے جب وہ لکھ رہے تھے تو امی نے ان سے پوچھا آپ کا ہدیہ کیا ہے۔ اس پر وہ مسکرائے اور فرمایا کہ تمہارا بھائی میرا مرید ہے اس لئے تمہارے لئے کوئی ہدیہ نہیں۔ امی مطمئن ہو گئیں۔ اب سٹیل کی نئی بالٹی میں انہوں نے پانی منگوایا اور ایک تعویذ لکھ کر پانی میں گھول دیا کچھ پڑھا پھونکا، دیواروں پر پانی کے چھینٹے مارے اور بقیہ پانی کو ابا کے اوپر انڈیل دیا۔ ہمیں ہنسی بہت آئی لیکن ڈر کی وجہ سے خاموش رہے۔ ایک تعویذ انہوں نے اپنے پاس موجود ہرن کی کھال پر تحریر کیا اور وہ بھی ہمیں دے دیا۔ تعویذوں سے فارغ ہو کر مٹی کے کوزے کی جانب متوجہ ہوئے۔ چار کوزوں پر مختلف عملیات تحریر کئے، آپس میں آٹے سے انہیں جوڑ دیا اور بھائی جان سے کہا کہ صحن میں چار گڑھے کھود کے پلاسٹک کی تھیلی میں رکھ کر دفن کردیں۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ اب کیلوں کی باری آئی ، کیلوں پر دم کرنے کے بعد انہیں بھی صحن میں ٹھونک دیا گیا۔ ان عملیات سے فارغ ہو کر پیر صاحب ہمارے بھائی جان کی جانب متوجہ ہوئے انہیں صحن میں لے گئے اور صحن میں کوئلے سے ایک بڑا سا دائرہ بنایا اور بھائی جان کو اس دائرے میں بٹھا کر دائرے میں چار چراغ روشن کر دیئے گئے۔ اب انہوں نے اس دائرے کے اطراف میں دوڑنا شروع کیا۔ ہم سب تماش بین بنے یہ سب دیکھتے رہے۔ ہاں ایک بات یہ کہ انہوں نے چراغ جلانے کے لئے بھائی جان کو لائے ہوئے لٹھے میں لپیٹ کر دائرے میں بٹھا دیا تھا۔ وہ دوڑتے رہے اور دوڑتے دوڑتے ڈنڈے کی مدد سے چراغ کو بجھاتے رہے۔ 15منٹ کے بعد یہ کھیل ختم ہو گیا۔ پیرصاحب ہانپتے ہوئے دوبارہ پلنگ پر آ بیٹھے۔ اور کہا اس لڑکے اوپر اثر ہے اور روزگار میں رکاوٹ ہے۔ میں نے روزگار کی رکاوٹ ختم کر دی ہے۔ پھر وہ دوبارہ بستر پر گرے ان کے چیلوں نے کہا اب ان پر ایک اور بزرگ کی حاضری ہوئی ہے۔ اور یہ بزرگ بدروح کا عمل جانتے ہیں۔ ان پیرصاحب نے کہنا شروع کیا کہ تمہارے گھر میں بدروح کا سایہ ہے۔ اور اسی طرح انہوں نے روحوں کی داستان سنا ڈالی۔

رات کافی ہو چکی تھی۔ ان تمام عملیات کے دوران(یعنی صبح نو بجے سے رات تقریباً ساڑھے بارہ بجے تک) انہوں نے دوپہر کا کھانا، شام کی چائے، رات کا کھانا اور پھل وغیرہ نوش جان کئے۔ رات کافی ہونے کی وجہ سے انہوں نے کہا کہ ہم رات یہیں قیام کریں گے۔ ہم بہت پریشان ہوئے کیونکہ ہمارا گھر دو کمروں پر مشتمل چھوٹا سا گھر ہے۔ الغرض والد صاحب نے حیل و حجت سے کام لیا۔ وہ جانے پر راضی ہو گئے لیکن انہوں نے فرمایا کہ ملتان میں میری فیس دس ہزار روپے ہے۔ یہ سن کر والد صاحب پر تقریباً سکتے کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔ ہماری بڑی درخواستوں پر وہ دس ہزار سے دو ہزار روپے پر اصرار کرنے لگے۔ امی نے دبے لفظوں میں دو سو روپے دینے کی پیشکش کی۔ انہیں جلال آ گیا اور انہوں نے کہا دو ہزار روپے سے ایک پیسہ کم نہ ہو گا اور اگر رقم مجھے نہ ملی تو میں استدراجی عمل کے ذریعے آپ کے گھر کو تباہ کر دوں گا۔ الغرض بہت انگاروں میں لپٹی ہوئی دھمکیاں دیں۔ دھمکیاں دیتے ہوئے وہ اٹھے اور گھر کے دروازے سے باہر نکل گئے۔ ان کے جانے کے بعد ہم نے سکھ کا سانس لیا اور دس منٹ بعد وہ دوبارہ دروازے سے اندر داخل ہوئے اور امی سے کہا۔ اچھا آپ دو سو روپے ہی دیں اور دو سو روپے لے کر رفو چکر ہو گئے۔براہ کرم آپ بتایئے کہ یہ سب ڈرامہ کس علم کی کڑی ہے۔ ان تعویذوں ، کیلوں اور چراغوں کا کیا کریں۔ ہمیں ڈر محسوس ہو رہا ہے۔ آیا وہ ہم سے انتقام تو نہیں لیں گے۔

جواب: اللہ کا شکر ادا کیجئے کہ بات دو سو روپے پر ختم ہو گئی۔ جس طرح نو سر باز لوگوں کو بے وقوف بنا کر روپے اینٹھ لیتے ہیں اسی طرح یہ پیرصاحب بھی اپنے عمل کے ذریعے ہاتھ کی صفائی دکھا گئے ہیں۔ جو تعویذ انہوں نے دیئے ہیں وہ سب بے اثر ہیں۔ ان کو جمع کر کے بہتے ہوئے پانی میں ڈال دیں اور بالکل پریشان نہ ہوں۔ انشاء اللہ آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔ آج کل عامل حضرات نے ایک وبا کی صورت اختیار کر لی ہے جگہ جگہ دیواروں پر اشتہار اور نہایت خوبصورت دفاتر اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بے چارے سیدھے سادے لوگ ان کے فریب میں آ کر خون پسینے کی کمائی برباد کر دیتے ہیں۔ دولت پرستی اللہ کے اوپر عقیدہ کی طاقت کو کمزور کر دیتی ہے اور جب آدمی کے اندر عقیدہ کی طاقت کمزور ہو جاتی ہے تو آدمی سہارے تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ چالاک لوگ نئے نئے روپ میں اللہ کی مخلوق کو بے وقوف بنا کر عیش کرتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھیئے کہ اگر کسی آدمی میں دنیا کا لالچ ہے تو وہ ہرگز روحانی آدمی نہیں ہو سکتا۔

Topics


Roohani Daak (1)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔