Topics

ٹیلی پیتھی


سوال: میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ٹیلی پیتھی سیکھنے کے ضمن میں شمع بینی کی کامیابی کے بعد اگر کشف سمعی کی مشق کی جائے تو صاحب مشق کسی کا ذہن پڑھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ کشف سمعی میں صاحب مشق ذہن میں پھیلی ہوئی ہزاروں آوازوں کو سننے کی کوشش کرتا ہے اور پھر ان میں سے کسی ایک آواز کو اپنے لئے منتخب کر کے اسے سننے کی مہارت حاصل کرتا ہے۔ میں نے آپ کے کالم میں ٹیلی پیتھی کے عنوان سے جو نگارشات پڑھی ہیں۔ ان میں اب تک کشف سمعی کی مشق کا ذکر نہیں پڑھا، آیا اس مشق کا کوئی وجود نہیں یا پھر اس کا ذکر نہ کرنے کی کوئی اور وجہ ہے اس مشق پر آپ اپنے علم کی روشنی میں کچھ تحریر فرما دیں تو عنایت ہو گی۔
جواب: روحانی ڈاک کے کالم میں اب تک ٹیلی پیتھی کے موضوع پر جو کچھ لکھا گیا ہے۔ اس کی حیثیت علمی تھی۔ عملی پہلوؤں پر قلم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ آپ کے سوالات کے جواب میں چند باتیں ٹیلی پیتھی کے سلسلے میں پیش کرنی ضروری ہیں۔

ٹیلی پیتھی کے مروجہ معنی خیالات کا ایک ذہن سے دوسرے ذہن تک کسی مادی وسیلے کے بغیر پہنچا دینا ہے لیکن علم روحانی میں ٹیلی پیتھی کے معانی وسعت رکھتے ہیں۔ روحانیت کی تھیوری میں سارا علم خیال کی کارفرمائی ہے۔ موجودات خیالات کے تانے بانے کے ذریعے ایک دوسرے سے بندھے ہوئی ہیں اور خیالات ہی ان کی زندگی کو تحریک دیتے ہیں۔

خیالات کو ارادے اور اختیار کے تحت ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کی مہارت حاصل کرنے کے لئے ذہنی یکسوئی اور مرکزیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ جب کوئی شخص ذہنی مرکزیت حاصل کر لیتا ہے تو اس کے اندر انتقال خیال کی صلاحیت بھی متحرک ہو جاتی ہے۔ ذہن کو یکسو کرنے کے لئے بہت سے طریقے استعمال کئے جاتے ہیں اور بہت سی مشقیں روبہ عمل لائی جاتی ہیں لیکن کسی کورس کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ صرف یہی کورس ایسا ہے جس پر عمل کر کے انتقال خیال میں مہارت حاصل کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ ہر شاگرد کی ذہنی صلاحیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے مشقوں میں ترمیم و تنسیخ و اضافہ ضروری ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیلی پیتھی کی مشقوں کو کالم میں بیان نہیں کیا گیا ہے۔

جہاں تک کشف سمعی کا تعلق ہے تو جیسا کہ ہم ابھی عرض کر چکے ہیں کہ زندگی خیالات کے دوش پر سفر کر رہی ہے۔ خیالات کے اندر حواس کے ٹکڑے جڑے ہوتے ہیں، بصارت سماعت لمس، شامہ یہ سب خیالات کے اجزاء ہیں۔ آدمی کس خیال کو ان ساری حسوں کی تفصیلی اور توسیعی انداز میں دیکھتا ہے۔ اس بحث کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خیال خود کو آواز کی صورت میں ڈھال سکتا ہے یا ہم کسی خیال کو آواز کی شکل میں محسوس کر سکتے ہیں۔ ایسا کوئی شخص جس کے اندر ذہنی یکسوئی کی صلاحیت بیدار ہو گئی ہو، خیالات کو آوازوں کی صورت میں سننا چاہتا ہے تو سن سکتا ہے۔

Topics


Roohani Daak (1)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔