Topics

دکھی لڑکی


سوال: احساس کمتری دن بدن اپنی جڑیں گہری کرتا جا رہا ہے۔ اور میں اندر سے روز بروز کھوکھلی ہوتی جا رہی ہوں۔ حد یہ ہے کہ میں کسی سے نظر ملا کر بات نہیں کر سکتی کیونکہ جب کوئی گھر میں سے یا عزیز رشتہ دار یا محلہ دار کوئی بھی مجھ سے معمولی سی بات بھی کرے تو مجھے فوراً یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کے سامنے میرا وجود کتنا حقیر اور کم تر ہے۔ میں بہت لاغر اور کمزور سی ہوں۔ ابھی کہیں میرا مخاطب کہیں مجھ سے یہ نہ پوچھ لے کہ تم دن بدن کمزور کیوں ہو رہی ہو۔ یہ تمام باتیں میرے دماغ میں ایک سیکنڈ کے اندر یکے بعد دیگرے آتی ہیں اور میرے دماغ میں ایک عجیب سا چکر آتا ہے اور میں اپنے مخاطب کی بات کا جواب نہیں دے پاتی۔ خواہ میرا مخاطب کوئی بھی ہو۔۔۔۔۔۔کوئی میری ہم عمر لڑکی ہو، کوئی پڑوس کی عورت ہو، کوئی یہ پوچھ لے کہ آج کیا پکاؤ گی یا کیا کام کر رہی ہو ۔ میرے دماغ میں وہی چکر آتا ہے اور دل زور زور سے دھڑکنے لگتا ہے۔ میں اس مرض میں اس قدر گرفتا ر ہوں یا اس مرض کے پنجے میں اس بری طرح جکڑی ہوئی ہوں کہ صبح سے شام تک میرے دماغ میں یہی احساس رہتا ہے کہ میں کتنی کم تر اور حقیر ہوں، بدشکل ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ اپنے دماغ کی توجہ ہٹاؤں مگر میری توجہ کسی طرح ان خیالات سے نہیں ہٹتی۔ یہی وجہ ہے کہ ان دماغی پریشانیوں کی وجہ سے میں دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہوں۔ مجھے کوئی اور بیماری نہیں ہے۔ لیکن یہ ہر وقت کی دماغی پریشانی دیمک بن کر مجھے چاٹتی جا رہی ہے۔

میں ایک بار پھر آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ خداوند قدوس اور پیارے نبی ﷺ کے صدقے اور تمام اولیائے کرام کے صدقے میں مجھے کوئی ایسا وظیفہ تجویز کر دیجئے جس سے مجھے کوئی فائدہ ہو۔

جواب: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ oپوری سورہ پڑھ کر فجر کی نماز کے بعد اور عشاء کی نماز کے بعد پانی پر دم کر کے پی لیا کریں۔چالیس روزرات کو سوتے وقت کمرے میں روشنی نہ ہو، اندھیرے میں سویا کریں۔ دن میں بھی گھر کے تمام کاموں سے فارغ ہونے کے بعد کوشش کریں کہ اندھیرے میں رہیں۔ آپ کے لئے ہر وقت مصروف رہنا نہایت مفید اور کامیاب علاج ہے۔ بزرگوں کے حالات پر مبنی قصوں پر کتابوں کا مطالعہ کیجئے۔

Topics


Roohani Daak (1)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔