Topics

جھنجلاہٹ کیسے دور ہو؟


سوال: آپ کی تصانیف کا مطالعہ کر رہا ہوں اور حیرت زدہ ہوں کہ آپ دن رات کام میں مصروف رہتے ہیں۔ ہزاروں خطوط کے جوابات دیتے ہیں۔ شاگردوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ تقریباً 12کتابیں تصنیف کی ہیں۔ملک اور بیرون ملک سے بھی رابطہ قائم ہے۔ سرجانی ٹاؤن میں ایک بڑا روحانی مرکز قائم کیا ہے وہاں ہر جمعہ کو سینکڑوں آدمیوں کا مفت علاج کرتے ہیں۔ اندرون و بیرون ملک بڑے بڑے مراقبہ ہال کی بھی نگرانی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود آپ کا چہرہ ہر وقت گلاب کے پھول کی طرح کھلا ہوا اور تروتازہ رہتا ہے۔ ہر ایک سے نہایت اخلاق اور محبت کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ جب کوئی آپ کے پاس بیٹھتا ہے تو اسے ایک عجیب قسم کا سکون اور اطمینان قلب کا احساس ہوتا ہے۔اس کے برعکس ہم لوگ جو کہ نوجوان ہیں اور ہر قسم کی طاقتور دوائیں خصوصاً وٹامنز وغیرہ استعمال کرتے رہتے ہیں، پھر بھی محنت اور مشقت کے کام کرنے کے بعد غصہ یا جھنجلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور سکون آور دواؤں کا سہارا ڈھونڈتے ہیں اس کے باوجود سکون سے محروم ہیں اور جب آپ کی عمر تک پہنچیں گے تو معلوم نہیں کیا حشر ہو گا۔آپ سے صرف میں ہی نہیں بلکہ ہر سکون اور صحت سے محروم شخص ضرور یہ پوچھنا چاہے گا کہ وہ کیا عمل ہے اور وہ کون سے حالات ہیں جن کی وجہ سے آپ مسلسل محنت کے باوجود اس ضعیفی میں بھی صحت مند چاق و چوبند اور پر سکون رہتے ہیں امید ہے کہ سکون اور صحت کا راز طشت ازبام فرمائیں گے۔

جواب: میری صحت اور سکون قلب کا راز یہ ہے کہ میں نے جان لیا ہے کہ یہ دنیا فریب نظر کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آپ یہاں کتنی دولت جمع کر لیں ، بڑے بڑے عالیشان محلات تعمیر کریں لیکن بالآخر یہ سب موت آپ سے چھین لے گی۔ میں دیکھتا ہوں کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے جسم کے ایک ایک عضو کو اپنی خوراک بنائیں گے۔ ہم اپنی اولادوں کے لئے اگر اپنے اپنے ضمیر کے خلاف دولت جمع کرتے ہیں تو مرنے کے بعد یہ اولاد ہمارے کسی کام نہیں آئے گی۔ اولاد عیش کرے گی اور بے ضمیر لوگوں کو فرشتے عذاب جہنم میں دھکیل دیں گے۔ یہ بات بھی میرے مشاہدہ میں ہے کہ جب کوئی بات یا واقعہ پرانا ہو جاتا ہے تو دنیا بھول جاتی ہے۔ یہ محض ہمارا خیال ہے کہ دنیا کیا کہے گی ساٹھ سال سے زیادہ زندگی میں، میں نے یہ تو سنا ہے کہ دنیا کیا کہے گی یہ نہیں سنا کہ خدا کیا کہے گا۔ میں خوش رہتا ہوں کہ میرا تعلق میرے خالق اللہ سے قائم ہے کہ الحمدللہ میں دنیا میں رہتے ہوئے اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ میری زندگی عارضی ہے اور مجھے بہت جلد اپنے پیارے اور شرفاؤں سے زیادہ محبت کرنے والے اللہ کے پاس جانا ہے۔

Topics


Roohani Daak (1)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔