Topics
عظیمی صاحب میں آج آپ کے سامنے اپنی ایک تکلیف لے
کر حاضر ہوں اور آپ سے یہ التجا کرتی ہوں کہ آپ اپنے قیمتی وقت سے کچھ وقت نکال کر
میرے اس تفصیلی خط کو پڑھیں اور جلد میری اس تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ خدا
نے مجھے دو بھائی دیئے ہیں۔ مجھ سے چھوٹا بھائی جس نے بی کام کیا ہے۔ تین سال پہلے
ظہر کے بعد گھر آیا تو کمرے میں ایک گرگٹ آ گیا، اس نے گرگٹ کو مارنے کے لئے ڈنڈا
چلایا تو گرگٹ بھاگ گیا اور وہ وہیں زمین پر گر کر تڑپنے لگا۔ اس وقت اس کی حالت
یہ تھی کہ منہ سے جھاگ نکل رہے تھے۔ آنکھیں چڑھ گئیں ، ہاتھ پاؤں اکڑ گئے اور وہ
بے ہوش ہو گیا۔ پندرہ منٹ بعد جب اسے ہوش آیا تو آنکھیں سرخ تھیں اور سر میں شدید
درد تھا اور زبان دانتوں میں آ کر کٹ گئی تھی اور کندھے پر سے ہاتھ اتر گیا تھا۔
ہم لوگ اس کو ایک حادثہ سمجھے اور پھر وہ نارمل بھی ہو گیا لیکن اس کے بعد اس کو
ٹھیک تین ماہ کے بعد پھر اسی طرح کا دورہ پڑا اور جو کیفیت پہلے پہلے دورے میں
ہوئی تھی وہی کیفیت ہوئی۔ ہر دفعہ ہاتھ اتر جاتاتھا اور زبان کٹ جاتی تھی۔ ہم
لوگوں نے مختلف ڈاکٹر، حکیم، عالم، ہومیو پیتھک ڈاکٹر غرض ہر جگہ علاج کرایا۔
ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ یہ مرگی کا دورہ ہے، یہ ختم نہیں کیا جا سکتا صرف کنٹرول
کیا جا سکتا ہے۔ عالم کا کہنا تھا کہ ان پر اثر ہے۔ یہ دورے کبھی تین ماہ بعد کبھی
چھ ماہ بعد اور کبھی سات ماہ میں بھی پڑ جاتے ، کبھی سوتے میں، کبھی نہاتے میں اور
گرنے کے باعث اس کو چوٹیں بھی لگتی ہیں۔ اس کا ہر ممکن علاج کرایا لیکن کوئی فائدہ
نہ ہوا۔ پھر آغا خان ہسپتال لے گئے۔ ٹیسٹ ہوئے انہوں نے مرگی بتایا اور ایک دوا
لکھ دی کہ یہ پابندی سے کھائیں ۔ اس سے دورہ ختم تو نہیں ہو گا کنٹرول ہو جائے گا۔
دوا کھانے سے سات ماہ تک دورہ نہ پڑا لیکن ایک دن اس نے گھر والوں کو بتایا کہ اس
کے پیٹ میں شدید تکلیف ہے اور سر میں درد ہے۔ آنکھیں لال ہو رہی تھیں، تھوڑی دیر
سوتا رہا پھر اٹھ کر کسی کام سے سیڑھی پر کھڑا ہوا اور بے ہوش ہو کر اوپر سے نیچے
پکے فرش پر گرا۔ گرنے کے بعد وہی دورے کی کیفیت ہو گئی لیکن اس دفعہ حال زیادہ
خراب تھا کیونکہ اس کے ایک کان سے، ناک سے اور منہ سے وافر مقدار میں خون آ رہا
تھا، تھوڑی دیر تک تڑپ کر بے ہوش ہو گیا اور خون کی تین چار بڑی بڑی قے بھی ہوئیں۔
اس دوران اس کو اسپتال لے گئے۔ راستے میں بھی دو تین دفعہ دورے کی کیفیت ہوئی۔
اسپتال میں دو گھنٹے بے ہوش رہا تو ڈاکٹر نے انجکشن دیا تو خون تو رک گیا اور ہوش
بھی آ گیا۔ اس دفعہ اس کا الٹا ہاتھ نہیں اترا بلکہ سیدھا ہاتھ جو کہ کبھی نہ اترا
تھا اپنی جگہ سے اتر گیا۔ دو دن آئی سی یو میں رہا پھر تین دن آغا خان ہسپتال میں
رہا۔ سر میں شدید درد تھا۔ ویسے ہوش میں رہتا تھا کبھی کبھی بولتا تھا اور سب کو
پہچانتا تھا۔ لیکن اتنا خون بہہ جانے کے باعث کمزوری سے چلنا مشکل ہو گیا ۔ اس کے
علاوہ جس کان سے خون آیا تھا اس سے سنائی بالکل نہیں دیتا۔ اسپتال سے گھر آ کر اس
نے گرم پانی سے سر دھویا اور سو گیا۔ جب سو کر اٹھا تو اس کا منہ ٹیڑھا ہو گیا۔
دانت پر دانت نہیں جمتا اور ایک آنکھ بند نہیں ہوتی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ لقوہ ہو
گیا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ خون کا دوران ٹھیک نہیں ہے، طاقت کے انجکشن لگ رہے ہیں۔
ڈاکٹر نے دورے کے لیے دیئے جانے والی دوا کی خوراک مزید بڑھا دی ہے۔
جواب: یہ خط چونکہ کراچی سے لکھا گیا ہے اس لیے
بہتر ہے کہ مریض کو دکھایا جائے۔ میری تشخیص کے مطابق یہ دورہ مرگی کا دورہ ہے۔
خون آنے کی وجہ زیادہ گرم دواؤں کا استعمال بھی ہو سکتا ہے۔ عامل صاحب کا یہ کہنا
ہے کہ بدروح، آسیب یا جنات کا سایہ ہے۔ صحیح نہیں ہے۔ گرگٹ مارتے وقت بے ہوش ہو کر
گر جانے کی ظاہری وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ گرگٹ مارتے وقت گھبراہٹ زیادہ ہو گئی۔
اور دماغ پر دہشت بھی طاری ہوئی۔ چونکہ مرض پہلے سے دماغ میں موجود تھا۔ اس لیے
دماغی خلیوں میں دور کرنے والی برقی رو سے ٹکرا گئی اور برقی رو نے ایک ہجوم کی
شکل اختیار کر لی۔ نتیجہ میں برقی رو جس انداز سے زمین میں ارتھ ہوتی ہے وہ سلسلہ
ٹوٹ گیا اور مرگی کا دورہ پڑ گیا۔ ملاقات سے قبل ٹیلیفون پر رابطہ قائم کر لیا
جائے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔