Topics
سوال: آپ اپنے کالموں میں بار بار یہ لکھتے ہیں کہ انسان اللہ کا نائب اور خلیفہ ہے۔ نیابت کا مطلب ہے کہ جس کی نیابت حاصل ہے اس کے اختیارات بھی حاصل ہوں۔ آدم زاد کو اگر اللہ تعالیٰ کی نیابت کے اختیارات حاصل نہیں ہیں تو وہ صر ف اور صرف حیوان ہے، انسان کہلانے کا مستحق ہرگز نہیں۔ انسان کا مرکزی کردار یہ ہے کہ وہ کائنات کے رموز کو سمجھ کر کائنات پر حکمرانی کرے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے علماء یا ہمارے دانشور چودہ صدیوں سے ہمیں جو بتا رہے ہیں، جو سکھا رہے ہیں اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: پہلی بات یہ ہے کہ میں ایک فقیر آدمی ہوں اور روحانی علوم کی اشاعت میرا مسلک ہے۔ میں ہمیشہ اختلافی مسائل سے گریز کرتا ہوں۔ جہاں تک تسخیر کائنات کے رموز اور فارمولوں کا تعلق ہے۔ قرآن خود اس کی شہادت دیتا ہے مطالعہ کائنات کی اہمیت اور حقیقت کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور معاشرتی مسائل سے متعلق تقریباً 150آئیتیں ہیں جبکہ تسخیر کائنات سے متعلق 756آیتیں ہیں۔ سورۃ اعراف میں ہے ’’کیا یہ لوگ آسمان اور زمین کی تخلیق پر غور نہیں کرتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی موت قریب آ گئی ہے۔‘‘ سورۂ عنکبوت میں ہے’’اے رسول صلی اللہ علیہ و سلم آپ کہہ دیجئے زمین پر چل پھر کر دیکھو کہ خدا نے کس طرح زمین کی پیدائش کی ہے۔‘‘ سورۃ فاطر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’غور کرو پہاڑوں میں سفید، سرخ، سیاہ رنگ پتھروں کی تہیں موجود ہیں۔‘‘سورۃ البقرہ میں ارشاد ہے کہ’’آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے اختلاف میں عقل مندوں کے لئے نشانیاں ہیں۔‘‘ سورۃ آل عمران میں ہے’’اگر تم ایمان میں مستحکم ہو تو دنیا میں سربلند رہو گے۔‘‘ دنیا میں ہم کتنے سربلند ہیں۔ یہ بات ہمارے سامنے ہے۔ اس سلسلہ میں کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔