Spiritual Healing
سوال: میری بہن(ش)جس کی عمر 24سال ہے۔ کافی
خوبصورت اور دراز قد ہے۔ وہ پہلی نظر میں پسند کر لی جاتی ہے مگر اس کی پرکشش صورت
نے جو مسئلہ پیدا کیا ہے وہ کافی اذیت ناک ہے۔ دو تین شادی شدہ مرد بھی اس کی طرف
متوجہ ہوئے اور شادی کے خواہشمند ہوئے۔ ظاہر ہے کہ شادی شدہ سے اس کی شادی ممکن
نہیں تھی۔ ایک لڑکامیری بہن سے شادی کا خواہشمند ہوا کیونکہ لڑکے کی تعلیم کم ہے
اور ذریعہ معاش بھی نہیں ہے۔ صحبت بھی برے لوگو ں کی ہے۔ لڑکے کے پس منظر کو
دیکھتے ہوئے مناسب طریقے سے انکار کر دیا چونکہ یہ لڑکی عمر بھر کا معاملہ تھا مگر
وہ لڑکا آپے سے باہر ہو گیا۔ روزانہ نہ جانے کن کن جگہوں سے فون کر کے اس نے ناک
میں دم کیا ہوا ہے۔ الٹی سیدھی دھمکیاں دیتا ہے۔ میری بہن نے کبھی فون پر بات نہیں
کی۔ کہتا ہے اغواء کر ا دوں گا وغیرہ وغیرہ۔ تا کہ تم رسوا ہو جاؤ (خاندان کی ایک
تقریب میں اس کی بہن اور میری بہن کی مشترکہ تصویریں ہیں) وہ اس حوالہ سے مختلف
قسم کی خطرناک اور غلط دھمکیاں دیتا ہے۔ اس قسم کی باتوں سے عزت دار لوگوں کو دن
رات کن اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے وہ آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ خود میری بہن کس صورتحال
سے دوچار ہے وہ قابل تحریر نہیں۔ میں نے اختصار کے ساتھ یہ صورت حال بیان کر دی
ہے۔ بزرگوں نے اور گھر والوں نے لڑکے کو بہت سمجھایا مگر وہ کسی صورت باز نہیں
آتا۔ سمجھ لیں کہ ہمارا گھرانہ موت کے دہانہ پر کھڑا ہے۔ آپ سے مودبانہ التجا ہے
کہ آپ کوئی ایسا قرآنی وظیفہ تحریر فرمائیں کہ میری بہن کی شادی بہتر اور معقول
جگہ ہو جائے اور اس لڑکے کو ہدایت نصیب ہو کہ وہ اپنے شیطانی اور مکروہ فعل سے باز
آجائے۔ آئندہ وہ کبھی فون کرنے، خطوط لکھنے یا دھمکیاں دینے کی کوشش نہ کرے اور
ہمیں بھی ذہنی و قلبی سکون نصیب ہو۔ مجھے خدا کی ذات پر یقین کامل ہے کہ وہ ہمیں
اس مشکل سے نجات دلائے گا۔ محترم اس دکھی بیٹی کو مایوس نہ کیجئے گا اور کوئی ایسا
عمل بتائیں کہ جس کو میں خود پڑھوں کیونکہ بہن مندرجہ بالا وجوہات کی بناء پر ذہنی
پراگندگی کا شکار ہے۔ بہن کا کبھی بھی اس لڑکےکے ساتھ کوئی تعلق ہرگز نہیں رہا کیونکہ
ہمارے گھرانے میں لڑکیوں کو مذہبی تعلیم دی جاتی ہے۔
جواب: اب ہمارا معاشرہ اس قدر گھناؤنا ہو گیا ہے
کہ اب شریف لوگوں کا دم گھٹنے لگا ہے۔ والدین آزادی کے غلط مفہوم سے جب بچوں کی
تربیت کرتے ہیں تو بچے گمراہ ہو جاتے ہیں۔ شریف گھرانوں میں لڑکیوں کو ٹیلیفون
کرنا اب ایک وبا کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ اب تو محکمہ ٹیلی فون بھی عاجز آ گیا
ہے۔ قانون کو تحفظ دینے والے ادارے، معاشرہ کے اس گھناؤنے کردار سے پریشان ہیں۔
میں نے اس سلسلہ میں بہت غور کیا ہے۔ میری سمجھ
میں یہ بات آتی ہے کہ ایسی حرکت وہ لڑکے کرتے ہیں جو معاشرہ میں کوئی مقام حاصل
نہیں کر سکے۔ محنت مزدوری کو کسرشان سمجھتے ہیں۔ والدین کی دولت پر زندگی کی
آسائشیں حاصل کرنا چاہتے ہیں بلاشبہ یہ لوگ مینٹل ہوتے ہیں جو آدمی خود پاگل ہے
جسے یہ بھی احساس نہیں کہ اس کی بھی بہنیں ہیں۔ اس سے اور کیا توقع کیا جا سکتی
ہے۔
اللہ تعالیٰ سب شریف خاندانوں کی حفاظت فرمائے۔
آمین۔ آپ ہر نماز کے بعد 100بار نصر من اللّٰہ و فتح قریب پڑھ کردعا کریں۔
ٹیلی فون آنے سے آپ خود کو کیوں مجرم محسوس کرتی
ہیں؟ اب تو یہ ہر تیسرے یا چوتھے گھر کا مسئلہ بن گیا ہے اور لوگ خوب جان گئے ہیں
کہ غلط ٹیلیفون کرنے والے لڑکے احساس محرومی کے مارے ہوئے ذہنی مریض ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔