Topics

نہ ہی ڈاکٹروں کی سمجھ میں کچھ آیا

س: سات سال پہلے میری شادی ہوئی تھی اور پھر شادی کے پورے ایک سال کے بعد مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہوئی اور خیریت سے چھٹا مہینہ شروع ہوا۔ کیونکہ پہلی دفعہ کسی ڈاکٹر وغیرہ کو نہیں دکھایا تھا۔ لہٰذا چھٹا مہینہ پورا ہونے کے ساتھ ہی بچہ ضائع ہو گیا۔ اس کے بعد تعویذ گنڈے بھی کروائے اور ڈاکٹری علاج بھی۔ اور دوسری دفعہ پھر آٹھ ماہ پورے ہونے میں دو چار دن تھے مگر پھر ویسے ہی مردہ بچہ پیدا ہوا۔ جبکہ مجھے تین چار ہفتے پہلے ہی محسوس ہو جاتا ہے کہ بچے کی حرکت کم ہو رہی ہے۔ پھر تیسرا بھی چھ ماہ اور چوتھا بچہ بھی چھٹے ماہ میں ضائع ہو گیا۔ نہ ہی کسی تعویذ وغیرہ نے اثر کیا اور نہ ہی ڈاکٹروں کی سمجھ میں کچھ آیا۔ جہاں بھی کسی نے بتایا وہاں ہی ٹکریں مارتی رہی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان سب کیس کے درمیان کا وقفہ چھ سات ماہ ہی پڑتا ہے اور یہ کہ بچے کا رنگ نیلا اور پیلا سا ہوتا ہے۔ جیسے کہ بہت تکلیف میں رہا ہو۔ یہ چاروں کیس تو پاکستان میں ہوئے پھر پچھلے سال ہماری ٹرانسفر مغربی جرمنی ہو گئی اور یہ سوچا کہ یہاں پر ڈاکٹروں کے علاج اچھے ہوں گے اور یہاں آ کر ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے کہا کہ اب جب بھی امید ہو گی میں شروع سے ہی علاج کروں گا اور کوشش کروں گا کہ کنٹرول کر سکوں اور پھر دسمبر سے میں امید سے ہوئی تو ڈاکٹر نے ہفتہ میں دو انجکشن اور ٹیبلٹ دینی شروع کر دی اور پھر تیسرے مہینے مجھے کمر میں بہت سخت درد محسوس ہوا اور میں دس دن ہوسٹل میں رہی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ آرام کرو درد ٹھیک ہو جائے گا اور اس کے بعد انجکشن اور دوائی دینی بند کر دی۔ مگر ہر دوسرے ہفتے چیک کرتا تھا۔ جبکہ اس دفعہ مجھے بچے کی حرکت میں کمی محسوس نہیں ہوئی اور چھٹا مہینے پورے ہونے میں تین چار دن باقی تھے تو بچے کی پیدائش کے درد شروع ہو گئے۔ فوراً ہسپتال داخل ہو گئی۔ ڈاکٹروں نے بہت کوشش کی۔ بچہ پیدائش سے آٹھ دس گھنٹے پہلے ہی فوت ہو چکا تھا اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پانچ دفعہ ایسا ہونے میں میری صحت کیسی ہو گی اور میرے دل کی حالت کیا ہو گی۔ 

دوسروں کے بچوں کو دیکھتی ہوں تو دل چاہتا ہے اٹھا کر گھر لے جاؤں۔ زندگی بے مقصد نظر آتی ہے۔ میری عمر 24سال ہے بس اس کے گھر کی آس ہے مجھے کمزوری اس قدر ہو چکی ہے کہ بتا نہیں سکتی اور سب سے زیادہ اثر میری نظر پر پڑا ہے۔ میری نظر بہت کمزور ہو گئی ہے۔ تھوڑے سے فاصلے سے کسی کو پہچان نہیں سکتی۔ خدارا آپ مجھے کوئی علاج ضرور بتایئے شاید اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں میری شفا لکھی ہو اور مجھے جلد جواب سے نوازیں۔

ج: اِنَّمَااَمْرُہٗ اِنَا اَرَادَشَیْاءً اِنَّ یَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْن(سورہ یٰسین کی آخری آیت سے پہلی آیت) اور 


لکھ کر صبح نہار منہ اور رات کو سوتے وقت یا عصر مغرب کے درمیان پانی سے دھو کر پئیں۔ 


Topics


Roohani Daak (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔


انتساب

ہر انسان کے اوپر روشنیوں کا ایک اور جسم ہے جو مادی گوشت پوست کے جسم کو متحرک رکھتا ہے۔ اگریہ روشنیوں کا جسم نہ ہو تو آدمی مر جاتا ہے اور مادی جسم مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو کر مٹی بن جاتا ہے۔

جتنی بیماریاں، پریشانیاں اس دنیا میں موجود ہیں وہ سب روشنیوں کے اس جسم کے بیمار ہونے سے ہوتی ہیں۔ یہ جسم صحت مند ہوتا ہے آدمی بھی صحت مند رہتا ہے۔ اس جسم کی صحت مندی کے لئے بہترین نسخہ اللہ کا ذکر ہے۔

*****