Topics
س: میرے والدصاحب انتقال کر گئے۔ اس سے پہلے زندگی میں کئی دور حوادث آئے۔ کئی دفعہ جان جانے کا بھی خطرہ رہا۔ ہمیشہ محرومیاں، مایوسیاں در پیش رہیں۔ اس کے ساتھ ہی دو رخ اور بھی تھے۔ 65ء تک صوم و صلوٰۃ کا پابند رہا۔ اس کے بعد آوارہ عیاش اور جملہ برائیوں کا پیکر بن گیا۔ والد کے انتقال کے بعد کاروبار سنبھال سکا، نہ حالات بدل سکے۔ اب تک 65ہزار نقد جا چکا ہے۔ اب کاروبار ہے نہ سرمایہ ہے۔ قرض کی ادائیگی ناممکن ہو گئی ہے۔ اور دن بدن قرض بڑھ رہا ہے۔ شادی ہو سکی نہ زندگی گزارنے کے لئے جھونپڑا بن سکا۔ نہ رات نیند آتی ہے نہ دن کو چین نصیب ہے۔ مایوسیاں بڑھ رہی ہیں۔ بے بسی و بے کسی کا یہ عالم ہے کہ ہر شئے دسترس سے باہر ہو چکی ہے۔ ماضی بھی درد ناک، حال بھی کربناک، مستقبل خطرناک اور تاریک۔ عبادت میں دلچسپی، نہ خود پر بھروسہ، اپنوں اور عزیزوں میں سبکی اور ہر آدمی درپے آزار ہے۔ ہر وہ آدمی نفرت سے دیکھتا ہے جو کل عزت کرتا تھا۔ رات کو بھی اندھیرا، دن کو تاریکی۔ کئی دفعہ اس زندگی کو ختم کرنے کا سوچا۔ پھر والدہ کی وجہ سے باز رہا۔ میں نے آخر کون سا جرم کیا ہے کہ قدرت نے مجھے بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔
ج: قدرت نے آپ کے بے یارومددگار نہیں چھوڑا۔ آپ نے نظام قدرت کی کارفرمائی میں دخل دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ معاف کرتے رہتے ہیں۔ معاف کرنا ان کی سنت ہے لیکن جب کوئی بندہ نظام قدرت کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ ایسے چکر میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ ہر امید روشنی بن کر ابھرتی ہے اور اس کا اختتام تاریکی اور مایوسی پر منتج ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھیں۔ لاکھوں کا ڈھیر خاک ہو جاتا ہے۔ عزت و جاہ کی جگہ ذلت و خواری مقدر بن جاتا ہے۔ بڑے بڑے بادشاہ بھکاری بن جاتے ہیں اور لاکھوں پتی کی تو حیثیت ہی کیا ہے۔ ارب پتی لوگوں کو معمولی ملازمت بھی میسر نہیں آتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایسا نظام ہے جو ہر وقت اور ہر آن جاری و ساری ہے۔
ایسا اس وقت ہوتا ہے جب آدمی کے اندر خودنمائی، بڑائی، کبر اور خودستانی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اللہ کی مخلوق کو اپنے سے کمتر سمجھنے لگتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک قانون یہ بھی ہے کہ اگر والدین سے خلاف قدرت یہ عمل صادر ہوتا رہے اور وہ معافی و تلافی سے پہلے مر جائیں تو اس کا نتیجہ اولاد کو اٹھانا بھگتنا پڑتا ہے۔ اس لئے کہ اولاد ماں باپ کے ورثہ کی حق دار ہوتی ہے۔ قانون قدرت اس طرز فکر کو تسلیم نہیں کرتا کہ ماں باپ کا چھوڑا ہوا اثاثہ تو اولاد کو ملے اور ان کے اعمال کی سزا صرف ماں باپ بھگتیں۔ جس طرح مال و دولت اور نیکی اور اس کا ثمرہ اولاد کے لئے ورثہ ہے، اسی طرح ماں باپ کی برائیوں کے نتائج میں بھی اولاد برابر کی شریک رہتی ہے۔ آپ ہر نماز کے بعد 100مرتبہ استغفار اور 100مرتبہ یا حی یا قیوم کا ورد کریں۔ نماز کی پابندی ضروری ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔
انتساب
ہر انسان کے اوپر روشنیوں کا ایک اور جسم ہے جو مادی گوشت پوست کے جسم کو متحرک رکھتا ہے۔ اگریہ روشنیوں کا جسم نہ ہو تو آدمی مر جاتا ہے اور مادی جسم مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو کر مٹی بن جاتا ہے۔
جتنی بیماریاں، پریشانیاں اس دنیا میں موجود ہیں وہ سب روشنیوں کے اس جسم کے بیمار ہونے سے ہوتی ہیں۔ یہ جسم صحت مند ہوتا ہے آدمی بھی صحت مند رہتا ہے۔ اس جسم کی صحت مندی کے لئے بہترین نسخہ اللہ کا ذکر ہے۔
*****